سوال   :نماز عصر کا وقت مثل اول سے مثل ثانی تک کا حکم کیا ہے ؟

سوال   :نماز عصر کا وقت مثل اول سے مثل ثانی تک کا حکم کیا ہے ؟

الجواب بعون الملك الوهاب

سب سے پہلے تمہید کے طور پر یہ بات سمجھنا ضروری ہےکہ شریعت میں جتنے بھی فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں جو فقہاءکرام کے مختلف آراء اوردلائل کے بنیاد پربن جاتے ہیں جو صرف علمی اور فقہی حد تک محدود ہوتے ہیں نہ کہ لڑائی اور تفریق کاسبب بن جائے۔درجہ بالا مسئلہ بھی کچھ اس نوعیت کاہے۔واضح رہے کہ مواقیت الصلوٰۃ کے بارے میں فقہاء کرام کے درمیان اختلاف کا بنیادی سبب بھی وقت اول اوروقت ثانی میں ہی ہےدرجہ بالا مسئلے میں عصر کے نماز کے وقت کے حوالے سے سوال کیا گیاہے نماز عصر کے ادائیگی میں اختلاف کا سبب ظہر کے اختتام پر ہے جن فقہاءکرام کی رائے ظہر کے ادائیگی کے آخری وقت مثل اول ہے تو ان کے نزدیک عصر کے آدائیگی کا ابتدائی وقت مثل اول کے بعد شروع ہوجاتی ہیں جب کہ دیگر فقہاء کرام کے نزدیک ظہر کے آدائیگی کا آخری وقت مثل ثانی ہے تو ان کے نزدیک عصر کے آدائیگی کا ابتدائی وقت مثل ثانی کے بعد شروع ہوجاتی ہیں۔

جن کی تفصیل درجہ ذیل ہیں۔

عصر کی نماز کا وقت اس وقت شروع ہو جاتا ہے۔ جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر (یعنی اس کا ا اپنا سایہ وضع کرنے کے بعد) ہو جائے جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام والی حدیث سے معلوم ہوتا ہےاور سورج کے غروب ہونے تک باقی رہتا ہے۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الْأُولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْءُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ،[1]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ‘جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دوبارامامت کی،پہلی بارانہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیااور)سایہ جوتے کے تسمہ کے برابرہوگیا، پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا۔

عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم :” كَانَ يُصَلِّي العَصرَ وَالشَّمسُ مُرتَفِعَةٌ حَيَّةٌ ، فَيَذهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى العَوَالِي ، فَيَأتِي العَوَالِي وَالشَّمسُ مُرتَفِعَةٌ ” [2]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) اس کے بعد کوئی شخص قبا جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔

قال النووي رحمه الله :” لا يمكن أن يذهب بعد صلاة العصر ميلين وثلاثة ، والشمس بعد لم تتغير بصفرة ونحوها ، إلا إذا صلى العصر حين صار ظل الشيء مثله ، ولا يكاد يحصل هذا الا في الأيام الطويلة ” [3]

یہ امام مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل”اور عام محدثین کا مسلک ہے اور یہی مسلک امام ابو یوسف اور محمد کا بھی ہے ایک روایت میں امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے [4]

فعندهما : إذا صار ظل كل شيء مثله خرج وقت الظهر ودخل وقت العصر وهو رواية محمدعن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى [5]

اگر چہ امام ابوحنیفہ ؒ          کامشہور قول مثل ثانی کا ہےلیکن قول اول مختارہے جو جمہور فقہاء اورعام محدثین نے اختیار کی ہے۔

اس لیے قول اول مختار ہے کہ اس کی بنیاد مندرجہ بالاحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

[1] : ترمذی  بَاب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺرقم:150

[2]:   صحیح البخاري (550) ، ومسلم (621)

[3] : انتهى من ” شرح مسلم ” (5/122)

[4] :  الکوکب الدری ج 1ص90

 [5] : المبسوط باب مواقیت الصلٰوۃ ج 1 ص 290مکتبۃ الغفاریہ

اپنا تبصرہ لکھیں