سوال: اگر کوئی شخص وقت سے پہلے اذان دے دیں تو اس کا کیا حکم ہےکیا اس کا اعادہ ضروری ہے؟اور کیا فرماتے ہیں کہ صبح کی آذان اور عام اذان کا حکم جدا ہے؟
الجواب بتوفیق اللہ عزوجل
سب فقہاء کرام اور ائمہ حدیث اس بات پر متفق ہے کہ اذان قبل از وقت مشروع نہیں کیونکہ اذان نماز کے وقت کا
اعلان کرنے کے لیے کہی جاتی ہے اور اگر وقت سے پہلے اذان ہو گئی تو لوگ اذان سن کر نماز پڑھ لیں گےحالانکہ وقت سے
پہلےنماز پڑھنا بھی درست نہیں۔ پس اگر وقت سے قبل اذان دے دی گئی تو اس کا اعادہ ضروری ہے۔
جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ:
”عن ابن عمر أن بلالا أذن قبل طلوع الفجر ، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يرجع ، فينادي : ألا إن العبد نام ثلاث مرات فرجع فنادى : ألا إن العبد نام”([1])
وَإِنْ أَذَّنَ قَبْلَ دُخُولِ الْوَقْتِ لَمْ يُجْزِهِ وَيُعِيدُهُ فِي الْوَقْتِ) لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ الْأَذَانِ إعْلَامُ النَّاسِ بِدُخُولِ الْوَقْتِ فَقَبْلَ الْوَقْتِ يَكُونُ تَجْهِيلًا لَا إعْلَامًا۔([2])
البحر الرائق میں علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں :
قولہ : (ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ) أي في الوقت إذا أذن قبلہ ، لأن یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر ۔۔۔۔ وفہم من کلامہ أن الإقامۃ قبل الوقت لا تصح بالأولی کما صرح بہ ابن الملک في شرح المجمع ۔ ([3])
الفتاوی التاتارخانیۃ میں لکھا گیا ہے:
‘‘ وفي ’’ الخانیۃ : إذا أذن قبل الوقت یکرہ الأذان والإقامۃ ولا یؤذن لصلاۃ قبل الوقت ۔۔۔۔ وأجمعوا أن الإقامۃ قبل الوقت لا یجوز” ۔([4])
علامہ کاسانی ؒنےبدائع الصنائع میں لکھا ہے کہ :
” حتی لو أذن قبل دخول الوقت لا یجزئہ ویعیدہ إذا دخل الوقت في الصلاۃ کلہا في قول أبي حنیفۃ ومحمد ۔”([5])
یعنی رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے اعادے کا حکم فرمایا جب اس نے وقت سے پہلے اذان دیا تھا۔
فجر کے علاوۃ تمام نمازوں کے لئے اگر اذان وقت سے پہلے دیدی گئی تو تمام ائمہ کرام کے نزدیک اس کا اعادہ واجب ہے۔ تاہم فجر کی اذان اگر وقت سے پہلے دے دی گئی تو بعض علماء کرام اس کا اعادہ ضروری نہیں سمجھتے۔ اور وقت سے پہلے دینا جائز سمجھتے ہیں ۔ان کی دلیل صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے
”عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ ، ثُمَّ قَالَ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى لَا يُنَادِي حَتَّى يُقَالَ لَهُ أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ
وفی روایة: كُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ لا يُؤَذِّنُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ ([6])
حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی
یعنی بلال رضی اللہ تعالی عنہ رات کے وقت اذان دیتےہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم رضي اللہ تعالی عنہ کی اذان سننے تک کھاتےپیتے رہو ، کیونکہ وہ طلوع فجر کے وقت اذان دیتے ہیں ۔ تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ طلوع فجر سے پہلے بھی صبح کا اذان ٹھیک ہے۔لیکن اس حدیث سے ان کا یہ استدلال کمزور ہے ۔کیونکہ وہ نماز صبح کے لئے نہیں دی جاتی تھی۔ورنہ پھر اس دوسرے اذان کی کیا ضرورت تھی ۔وہ تو اس لئے کی جاتی تھی کہ لوگوں کو اطلاع دی جائےکہ صبح قریب ہے،اگر سحری کرنا ہے تو اس کے لئے تیاری شروع کریں ،یافجر سے پہلے دیگر اعمال مثلاً تہجد وغیرہ کی تیاری کی جائے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں
”عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ – أَوْ قَالَ نِدَاءُ بِلَالٍ – مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ – أَوْ قَالَ يُنَادِي – بِلَيْلٍ، لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَيُوقِظَ نَائِمَكُمْ» وَقَالَ: «لَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا وَهَكَذَا – وَصَوَّبَ يَدَهُ وَرَفَعَهَا – حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا» – وَفَرَّجَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، ([7])
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان کی وجہ سے نہ رکے یا آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پکار سحری کھانے سے نہ ر وکے کیونکہ وہ اذان دیتے ہیں یا فرمایا کہ وہ پکارتے ہیں تاکہ نماز میں کھڑا ہونے والا سحری کے لئے لوٹ جائے ۔ اور تم میں سے سونے والا جاگ جائے ۔ آپ ﷺ نے یہ فرما کر ہاتھ سیدھاکیا اور اوپر کو بلند کیا یہاں تک کہ آپ فرماتے کہ صبح اس طرح نہیں ہوتی پھر انگلیوں کو پھیلا کر فرمایاس کہ صبح اس طرح ہوتی ہے
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے سے اذان دیتے ہیں تاکہ جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کے لیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ بیدار ہو جائیں عقلاًبھی یہی قول راجح معلوم ہوتی کہ کوئی وقت سے پہلے کہیں نماز نہ پڑھے۔
واللہ اعلم بالصواب
[1] : سنن ترمذی (ج1 ص79) وھٰکذا ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی الاذان قبل طلوع الوقت
[2] : (المبسوط للسرخسي، ج 1 ص 278، باب الأذان)
[3] : البحر الرائق ج 1ص 454/455 ، باب الأذان)
[4] : فتاوی تاتارخانیہ ج 1 ص 325
[5] : ( البدائع الصنائع ج 1 ص 38 فصل في بیان وقت الأذان )
[6] : صحیح بخاری ج 1 ص 418 کتاب الاذان ، باب الاذان الاعمی اذا کان لہ من یخبرہ ط البشری
[7]: صحیح مسلم ج 2 ص 711 ط البشری کتاب الصیام باب بیان ان الدخول فی الصوم یحصل بطلوع الفجر