سوال: ایک آدمی فوت ہوا ،ورثاء میں ایک بیوی،پانچ بیٹیاں،دو حقیقی بہنیں ،تین علّاتی بھائی او ر دو علّاتی بہنیں رِہ گئے ہیں۔اب تقسیم ِ میراث کیسا ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق
بصدق صورت ِ مسئولہ میں بعد از ادائیگی حقوق ثلاثہ متعلقہ بترکہ میت (تجہیز وتکفین،قرض، وصیت ایک تہائی میں) باقی ترکہ ورثاء کے درمیان اسی طرح تقسیم ہوگا کہ بیوہ کو کُل مال کا آٹھواں حصہ
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ [1] ،
بیٹیوں کو کُل مال کی دو تہائی
فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ [2]
اور باقی ترکہ عصبیت کے بنیاد پر حقیقی بہنوں کو ملے۔جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسی طرح کےایک فیصلے میں فرماتے ہیں:
أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ[3]۔
اسی طرح علم ِمیراث کے مشہور کتاب “سراجی” میں لکھا ہے:
وامّا العصبة مع غیره، فکُل انثیٰ تصیر عصبة مع انثیٰ اخریٰ کالاخت مع الابن[4]
پس تقسیم کا طریقہ ایسا ہوگا، کہ کُل مال کو 240 برابر حصوں میں تقسیم کیاجائیگا ۔30 حصے بیوہ کو ،160 حصے بیٹیوں کو(ہر بیٹی کو 32 حصے ملے گا)اور 50 حصے بہنوں کو (ہر بہن کو 25 ملے گا)دیا جائیگا۔باقی رہے علّاتی بہن بھائی ، تو انکو کچھ نہیں ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
: [3]صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث ابنۃ الابن مع بنت،(حدیث رقم:6736