سوال : السلام وعلیکم! سلام کے بعد عرض کیجاتی ہے کہ بھتیجی عائشہ نے چچا زین العابدین کی ساتھ دودھ پی لیا ہے، اب زین کی بڑی بہن ہےجو عائشہ کی پھوپھی ہے، کیا عائشہ کا نکاح پھوپھی کے بیٹے عمیر سے ہو سکتاہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب
یہ صورت نکاح کی بالکل بھی درست نہیں ہے کیونکہ عائشہ نے زین العابدین کی والدہ کا دودھ پی لیا ہے تو زین العابدین کی بہن بھی ان کی بہن ہوگئی اور چونکہ عمیر عائشہ کابھانجابنتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ نکاح شرعا درست نہیں ہوگا۔
چنانچہ بخاری شریف میں حدیث ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا ، وَأَنَّهَا سَمِعَتْ صَوْتَ رَجُلٍ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فِي بَيْتِكَ ؟ قَالَتْ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : لَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَعَمْ إِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ[1]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے اسے بتایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے یہاں تشریف فرما تھے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک صحابی کی آواز سنی جو ( ام المؤمنین ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنے کی اجازت چاہتا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ! میرا خیال ہے یہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا ہے۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ صحابی آپ کے گھر میں ( جس میں حفصہ رضی اللہ عنہا رہتی ہیں ) آنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا، میرا خیال ہے یہ فلاں صاحب، حفصہ کے رضاعی چچا ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے ایک رضاعی چچا کے متعلق پوچھا کہ اگر فلاں زندہ ہوتے تو کیا وہ بے حجاب میرے پاس آ سکتے تھے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”ہاں! دودھ سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
بدائع الصنائع میں علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والاصل فی ھذہ الجملة قولہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب[2]
اور اس جملے کا اصل (مفہوم) نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جو چیزیں نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں، وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتی ہیں۔
اس طرح مسلم شریف میں حدیث ہے:
يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ[3]
رضاعت سے وہ (رشتے) حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔
لہٰذارضاعی خالہ سے نکاح شرعا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم با الصواب
[1] : بخاری ،باب وامھاتکم اللاتی ارضعنکم ویحرم من الرضاع ما یحرم من النسب، ج: 2، ص: 764 ط: قدیمی کتب خانہ
[2] : بدائع الصنائع ج:3،ص:397،کتاب الرضاع،فصل فی بیان المحرمات بالرضاع،ط:دارالکتاب کوئٹہ
[3] : مسلم کتاب الرضاع ،باب یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ ،حدیث نمبر:3569 مکتبہ بشریٰ