سوال: کیا حرم یا کسی اور مقدس مقام پر گناہ کرنےسےگناہ کےجزاءمیں اضافہ ہوگا ؟

سوال: کیا حرم یا کسی اور مقدس مقام پر گناہ کرنےسےگناہ کےجزاءمیں اضافہ ہوگا  ؟

الجواب بعون الملک الوھاب

انسان اپنےرب کا غلام ہےاور عبدیت کا تقاضایہ ہےکہ وہ اپنےمالک  کےساتھ ہرکام میں مخلص ہواور غلام اپنے آقا کی نافرمانی نہیں کرتااس لیےانسان کو چاہیےکہ وہ اپنےرب کی نافرمانی سےاپنےآپ کو بچاے رکھے لیکن چونکہ انسان معصوم عن الخطاءنہیں ہے اس لئےاس سے گناہ سرزدہوتے رہتےہیں لیکن اچھا انسان وہ ہےجب اس سےگناہ سرزد ہوجاےتو فورا اپنے رب کے حضور رجوع کرنے بیٹھ جاےاور اپنےرب کو راضی رکھے۔باقی رہا بیت اللہ شریف یا کسی اور مقدس مقام پر گناہ کے اضافے کی بات تو اضافہ تو ہوجاتاہےلیکن یہ اضافہ دو طرح کے ہو سکتا ہے۔

 (1)من حيث الكيفيت ، (2) من حيث الكميت .

 (1)من حیث الکیفیت کا مطلب یہ ہے کہ ان مقدس مقامات کی وجہ گناہ کی شناخت اور قباحت میں اضافہ ہو جاتاہےجس طرح ان مقامات کی وجہ سے نیکی کی ثواب اور بدلہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

 (2)من حیث الکمیت کا حاصل یہ ہے کہ ایک حرام کام کے ارتکاب کا گناہ ہے، اور دوسرامقدس مقامات کی بے حرمتی کاگناہ ہے۔یہ مطلب نہیں کہ بعینہ وہ گناہ ڈبل اور دو گنا ہو جاتا ہے۔شعائر اللہ کی عزت اور حرمت تقوی کی علامت ہے۔

ارشاد ربانی ہے: ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ ۞[1]

یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر  کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سےہے

اس آیت کی تشریح میں امام سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے جبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے، یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اتر آیا ہے۔[2]

اس کے برخلاف اگر کسی نے شعائر اللہ کی بے حرمتی کی اور مقدس مقامات میں گناہ کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالی اس کو سخت ترین عذاب دے گا، اس لئے کہ ایک اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ، دوسرا یہ کہ مقدس مقامات کی بے حرمتی کی۔چنانچہ ارشاد خداوندی ہے۔

 وَمَنۡ يُّرِدۡ فِيۡهِ بِاِلۡحَـادٍۢ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡهُ مِنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ [3]

اس (مسجد حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا  اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے

امام قرطبی نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں امام ضحاک اور ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انسان کو ان مقامات پر گناہ کی صرف نیت و ارادہ کرنے سے سزا ملے گی اگر چہ اس نے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا چنانچہ فرماتےہیں۔

ذهب قوم من أهل التأويل منهم الضحاك وابن زيد إلى أن هذه الآية تدل على أن الانسان يعاقب على ما ينويه من المعاصى بمكة وان لم يعمل ۔[4]

مفتی شفیع صاحب اس آیت کی تشریح میں علمآء سلف کااقوال نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں :

اور ابن مسعودؓ سے اس کی ایک تفسیر یہ بھی منقول ہے کہ حرم کے علاوہ دوسری جگہوں میں محض گناہ کا ارادہ کرنے سے گناہ نہیں لکھا جاتا ہےجب تک عمل نہ کرے اور حرم میں صرف ارادہ پختہ کرلینے پر بھی گناہ لکھا جاتا ہے۔[5]

اورقرطبی نے یہی تفسیر ابن عمر سے بھی نقل کی ہے اور اس تفسیر کو صحیح کہا ہے۔

وقد روي نحو ذلك عن ابن مسعود وابن عمر ، قالوا : لو هم رجل بقتل رجل بهذا البيت وهو بِعَدَنِ أَبْين ؛ لَعَذَّبه الله قلت ھذا صحیح۔[6]

اور امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کے ذیل میں رقمطراز ہیں:

اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھانے تک کو الحاد فی الحرم میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھہرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجہ اولی اس تعریف میں آتی ہے۔[7]

واللہ اعلم بالصواب

[1]:الحج -32

1 : تفھیم القرآن ج3 ص224 حاشیہ61 ادارہ ترجمان القرآن لاہور

[3]: الحج- 25

[4] : القرطبی -ج14ص356 انوارالقرآن کتب خانہ

[5] : معارف القرآن- ج 6 ص 316 مکتبہ معارف القرآن کراچی

[6] : القرطبی -ج14 ص356 انوارالقرآن کتب خانہ

[7]: تفھیم القرآن ج3 ص217 حاشیہ 44 ادارہ ترجمان القرآن لاہور