سوال : کائنات کا اصل وحقیقی حاکم کون ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نطام اللہ نے پیدا کیا ہے لیکن اب یہ نطام فرشتے چلا رہے ہیں کیا یہ بات درست ہے ؟سائل احمد

 سوال :  کائنات کا اصل وحقیقی حاکم کون ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نطام اللہ نے پیدا کیا ہے لیکن اب یہ نطام فرشتے چلا رہے ہیں کیا یہ بات درست ہے  ؟سائل احمد

الجواب بعون الملک الوھاب

اس کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جسے ایک ہی خدا نے پیدا کیا۔ جس پر ایک خدا فرماں روائی کر رہا ہے۔ جس کے سارے اختیارات و اقتدارات کا مالک ہی خدا ہے۔ نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے۔ نہ اس کی تدبیر و انتظام میں کوئی  شریک ہے اور نہ اس کی فرماں روائی میں کوئی حصہ دار ہے۔ مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمہارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلا قی وتمدنی اور سیاسی رب بھی۔ وہی تمہارا معبود ہے۔ وہی تمہارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے۔ وہی تمہاری دعاؤں کا ملجا و ماوی ہے۔ وہی تمہارے تو کل و اعتماد کا سہارا ہے۔ وہی تمہاری ضرورتوں کا کفیل ہے اور اسی طرح وہی بادشاہ ہے۔ وہی مالک الملک ہے۔ وہی شارع و قانون ساز اور امر و نہی کا مختار بھی ہے۔اس دعوت کو قرآن جس طریقہ سے پیش کرتاہے وہ خود اسی کی زبان سے سنیے۔

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ يُغۡشِى الَّيۡلَ النَّهَارَ يَطۡلُبُهٗ حَثِيۡثًا ۙ وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ وَالنُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمۡرِهٖ ؕ اَلَا لَـهُ الۡخَـلۡقُ وَالۡاَمۡرُ‌ ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞[1]

در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا  ، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبر دار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔ بڑا برکت والا ہے اللہ  ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگارہے۔

اس آیت کے ذیل میں امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں بادشاہی صرف ایک ذات کی ہے، اور حاکمیت (Sovereignity) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے، اور یہ نظام کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا گلی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اورسیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (Sovereign)بھی تسلیم کرے۔[2]

قُلۡ مَنۡ يَّرۡزُقُكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ اَمَّنۡ يَّمۡلِكُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ يُّخۡرِجُ الۡحَـىَّ مِنَ الۡمَيِّتِ وَيُخۡرِجُ الۡمَيِّتَ مِنَ الۡحَـىِّ وَمَنۡ يُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ‌ؕ فَسَيَـقُوۡلُوۡنَ اللّٰهُ‌ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ۞[3]

ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ کہو، پھر تم حقیقت کے خلاف چلنے سے پر ہیز نہیں کرتے؟

فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الۡحَـقُّ ‌ ۚ فَمَاذَا بَعۡدَ الۡحَـقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ‌‌ ۚ فَاَنّٰى تُصۡرَفُوۡنَ ۞[4]

تب تو یہی اللہ تمہارا حقیقی رب ہے۔  پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟ آخر یہ تم کدھر پھرائے جار ہے ہو ؟

اس آیت کے ذیل میں ملاحظہ ہو امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ:

یعنی اگر یہ سارے کام اللہ کے ہیں، جیسا کہ تم خود مانتے ہو، تب تو تمہارا حقیقی پروردگار، مالک، آقا، اور تمہاری بندگی و عبادت کا حق دار اللہ ہی ہوا۔ دوسرے جن کا ان کاموں میں کوئی حصہ نہیں آخر ربوبیت میں کہاں سے شریک ہو گئے ؟[5]

يُوۡلِجُ الَّيۡلَ فِى النَّهَارِ وَيُوۡلِجُ النَّهَارَ فِى الَّيۡلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ ‌ۖ  كُلٌّ يَّجۡرِىۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ لَـهُ الۡمُلۡكُ ؕ وَالَّذِيۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ مَا يَمۡلِكُوۡنَ مِنۡ قِطۡمِيۡرٍؕ ۞[6]

وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے۔  چاند اور سورج کو اُس نے مسخر کر رکھا ہے  ۔ یہ سب

کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جارہا ہے۔ وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں) تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتےہو وہ ایک پرکاہ  کے مالک بھی نہیں ہیں۔

اِنۡ تَدۡعُوۡهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡا دُعَآءَكُمۡ‌ ۚ وَلَوۡ سَمِعُوۡا مَا اسۡتَجَابُوۡا لَـكُمۡ ؕ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ يَكۡفُرُوۡنَ بِشِرۡكِكُمۡ ؕ وَلَا يُـنَـبِّـئُكَ مِثۡلُ خَبِيۡرٍ[7]

انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سُن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔  اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے  حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبر دار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔

اس آیت  کی تشریح کرتے ہوے امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:

خبردار سے مراد اللہ تعالی خود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دوسرا کوئی شخص تو زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے شرک کی تردید اور مشرکین کے معبودوں کی بے اختیاری بیان کرے گا۔ مگر ہم حقیقت حال سے براہ راست باخبر ہیں۔ ہم علم کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ لوگوں نے جن جن کو بھی ہماری خدائی میں با اختیار ٹھہرا رکھا ہے وہ سب بے اختیار ہیں۔ ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے جس سے وہ کسی کا کوئی کام بنا سکیں یا بگاڑ سکیں۔ اور ہم براہ راست یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز مشرکین کے یہ معبود خود ان کے شرک کی تردیدکریں گے۔[8]

ان آیات کو اور ان کی طرح دوسرے آیت جن میں یہ مضمون موجودہے (الزمر5-6 المؤمن61-65 الروم26-30الجاثیہ36-37 مریم64 ہود123 ،المزمل9،الانبیاء92-93 ،الناس1-3)سلسلہ وار پڑھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن ربوبیت کو بالکل حاکمیت اور سلطانی ( Sovereignty) کا ہم معنی قرار دیتا ہے اور ” رب ” کا یہ تصور ہمارے سامنے پیش کرتاہے کہ وہ کائنات کا سلطان مطلق اور لاشریک مالک و حاکم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

[1] : الأعراف – 54

[2] : تفھیم القرآن ج2 ص37 حاشیہ41 ادارہ ترجمان القرآن

[3] : یونس-31

[4] :یونس-32

[5] :تفھیم القرآن ج2 ص282 حاشیہ38 ادارہ ترجمان القرآن

[6] :فاطر-13

[7] :فاطر-14

[8] : تفھیم القرآن ج4 ص227 حاشیہ 35 ادارہ ترجمان القرآن