کیا  زراعتی اخراجات عشر سے مستثنی ہوں گے؟

کیا  زراعتی اخراجات عشر سے مستثنی ہوں گے؟

الجواب وباللہ التوفیق

زراعتی اخراجات  عشر سے  مستثنی نہیں بلکہ وہ اس میں شامل ہے  نبی کریمﷺ  نے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے جس زمین  کی سیرابی قدرتی پانی سے ہوتی ہے اس کے لئے عشر یعنی پیداوار کا دسواں حصہ مقرر کیا ہے اور جس زمین کی سیرابی کنویں یا ٹیوب ویل سے ہوتی ہے تو اس کے لئے نصف  عشر  یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ مقرر کیا ہے ۔اگر اخراجات کا استثناء مقصود ہو تا تو اس فرق کی ضرورت نہیں تھی بہرصورت10 فیصد  واجب ہو تا اور اخراجات کی منہائی کا حکم دیا جاتا مگر دو ہی شرحوں کی تحدید اس بات کو بتلا ئی  ہے کہ عشر کے حکم میں شریعت نے یہ مقابلہ دوسرے اموال زکوٰة کے ایک گو نہ تنگی رکھی ہے اور اخراجات کی منہائی ملحوظ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ زکوٰة کی اس صورت میں نہ مال پر سال گزر نے کی شرط ہے ۔نہ دیون ومطالبات سے فارغ ہونے کی اور نہ حاجات اصلیہ کا استثناء ہے ۔([1])

شریعت مطہرہ نے عشر دینے کے لئے سال کا قید نہیں لگایا ہے  جیسا کہ درجہ ذیل  ایت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے

وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ [2]

فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو

اسطرح بخاری شریف کے حدیث میں مذکور ہے

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ فِيمَا أَقَلُّ مِنْ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ[3]

نبی کریم ﷺفرماتے ہیں کہ پانچ وسق سے کم پیدوار میں زکوٰۃ یعنی عشر نہیں ہے اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر پیدوار پانچ وسق سے زیادہ ہو تو اس میں عشر لازم ہوگی اور کسی بھی حدیث میں زرعی اخراجات کا مستثنیٰ موجود نہیں ہے ۔

لہذا یہ با ت ذہن نشین کرنی چاہیے  کہ دین اسلام میں مقدار عشر کا دارومدار زمین کی سیرابی پر ہے اس  کے علاوہ جتنی بھی اخراجات ہیں ان کا تعلق مقدار عشر سے نہیں ہےجہاں زمین کی سیرابی قد رتی وسائل سے ہو ،تو پیدوار سے دسواں حصہ لیا جائے گا اور جہاں قدرتی وسائل نہیں ہے بلکہ محنت ومشقت اور اخراجات کرنا پڑیں تو بیسواں حصہ لیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

[1]جدید فقہی مسائل ج 1ص158عبادات مکتبہ زمزم پیلشرز

[2] الانعام 41

[3] بخاری کتاب الزکوٰۃ رقم 1484 م بشریٰ

اپنا تبصرہ لکھیں