سوال : کیا لڑکیاں تعلیم کے حصول کے لیے ہسٹالائیز ہو سکتی ہیں یا انہیں ؟
الجواب وبااللہ التوفیق
حصول تعلیم کے لئے لڑکیوں کا ہاسٹل میں ہونا اس صورت میں جائز ہے جب وہ شریعت کے حدود کے اندر ہو یعنی ان میں کوئی ایسا عمل نہ ہو جو شریعت کے خلاف ہو ، اور وہاں ان لڑکیوں کےلئے ضروریات کا انتظام کیا گیا ہو مثلا کھانا پینا وغیرہ ،اسی طرح دینی امور کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک ضروری چیز ہے جن دینی مسائل کی عورت کو ضرورت ہو ان مسائل کو سیکھے ۔ بشرطیکہ انہیں عورتوں کے درمیان رہ کر حاصل کیا جائے مساجد وغیرہ میں قائم کئے جائے والے وعظ وہ نصیحت کے دروس کی حاضری میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ بشر طیکہ پردے میں ہو اور مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ جیسا کہ ابتدا اسلام میں خواتین مساجد میں حاضر ہوکر دین سیکھتی اور سکھائی تھیں ۔([1])
عورتوں کے لئے مدرسہ اور مجالس میں تعلیم نسواں جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے دینی تعلیم تو بہت ضروری ہے۔ لیکن دنیوی تعلیم بالخصوص طب کی تعلیم کی اہمیت اور افادیت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ خواتین کو تعلیم دینے کے لیے معلمات اور خواتین کے علاج کے لیے خاتون ڈاکٹر کی ضرورت سے انکار کرنا امر بد یہی سے انکار کرنا ہے۔سورۃ العلق کی آیت علم با لقلم میں قلم کو علم کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور عورتوں کو اس سے مستثنی نہیں کیا گیا۔ باقی رہی یہ بات کہ عورتوں کو خط سکھانا فتنہ کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تو اگر اس قسم کی اوہام وظنون کی بناء پر قلم کے استعمال سے عورتوں کو منع کیا جاسکتا ہے تو پھر زبان کی استعمال سے بھی روک دینا چاہیے حالانکہ پردے کے پیچھے سے بات کرنے اور سنے کی اجازت حدیث اور قرآن میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ خط لکھنے اور پڑھنے سے پر عورتوں کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے۔([2])
عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ نہایت نازک ہے اس پر فتن دور میں لڑکیوں کا گھروں سے باہر نکلنا ہیں بھی راہ روی کا باعث ہے ۔ اس لئے سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ گھروں میں رہ کر تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے۔
اگر گھر میں رہ کر تعلیم کا بندوبست نہ ہو سکے تو دوسرا درجہ یہ ہے محلے محلے میں ان کی تعلیم کے لیے پردے کے ساتھ معقول انتظام کرنا چاہیے ساتھ میں مکاتب اور مدارس بھی ہونے چاہیے تاکہ انہیں گھر سے دور نہ جانا پڑے ۔اور گھر والے با آسانی ان کی نگرانی کر سکیں اگر قومی لاپرواہی کی سبب محلہ وار مکاتب وغیرہ بھی نہ ہو تو بھی عورتوں کی دنیوی اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں حاصل کرنے کی غرض سے نسواں کا لج کا قیام شریعت کی نظر میں غیر ضروری ہے۔ اور ایسے کالجوں میں پائی جانے والی معاشرتی خرابیوں اور بے حیائیوں کا سبب اس طرح کی اداروں کو قائم کرنے سے منع کیا جائے گا- لیکن اگر لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لئے اعلیٰ تعلیمی مدارس اس مقصد سے قائم کی جائیں، تاکہ مسلمان بچیاں تعلیم گاہوں میں جانے کے بجائے شریعت اور پردہ کی پا بند ہوکر دین سیکھیں اور اس کے بعد اپنے گھروں کا ماحول دینی بنائیں-
تو اس مقصد سے خواتین کے لیے دینی مدارس کا قیام نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوگا ۔ اور اس مدرسہ کے یہ کی ذمہ داری پر نازک ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ پورے حزم وہ احتیاط اور انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ شریعت کے دائرے میں رہ کر اس ادارے کو چلائیں پردی کا مکمل انتظام ہو معلمات خود دین دار اور پابند شریعت ہو لڑکیوں کے ساتھ کسی بھی طرح مردوں کا اختلاط نہ ہو-([3])
موجودہ دور میں فحاشی اور بے حیائی عروج کو پہنچ چکی ہے ان حالات میں مسلمان عورتوں کی حیا اس وقت محفوظ رہ سکتی ہے ۔ جب وہ اپنے گھروں میں اپنی آپ کو بند رکھیں اسلام نے عورت کو بلا ضرورت گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے سے منع کیا ہے۔البتہ مجبوری کی وجہ سے پردے کاہتمام کرئے ہوئے بڑی چادر یا برقع پہن کر نکلنا جائز ہے۔ تعلیم اور تربیت جیسی ضرورت کے لئے نکلنے کو فقہاے کرام نےاس شرط کے ساتھ جائز کیا ہے کہ پردہے کا پورا اہتمام ہو فتن وفساد پھیلنے کا اندیشہ نہ ہو مردوں کیساتھ اختلاط نہ ہو موجودہ دور میں مردوں اور عورتوں کی مخلوط تعلیم میں فتنے وفساد کا پہلو محتاج بیان نہیں اس لئے عورتوں کا مردوں کے ساتھ مخلوط تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ۔
البتہ اگر عورتوں کے لئے علیحدہ تعلیم کا ادارہ میسر نہ ہو اور طب یا کوئی اسی تعلیم ہوں کہ کچھ مسلمان با حیا خواتین کا ایسے حاصل کرنا معاشرتی ضرورت شمار کیا جاتا ہوں تو ایسی صورت میں مخلوط ادارہ میں تعلیم کی گنجائش ہوگی۔
1 چہرے کو چھپائے اور مکمل پردے کا خاص اہتمام کرئے ۔
2 عفت اور عصمت اور ناموس پر کوئی آنچ نہ آنے دے۔
3 مردوں کے ساتھ غیر ضروری اختلاط اور اہم کلامی سے مکمل اجتناب کرے۔
4 پڑھائی کی فورا بعد گھر میں جائے ۔([4])
لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام یا تو اس طور پر ہو کہ لڑکیاں جمع نہ ہوں اپنے اپنے گھروں پر یا محلے کی بیٹیوں ان سے تعلیم پائی۔ لیکن آج کل یہ عادت بہت مشکل ہے یا اگر ایک جگہ جمع ہو تو پھر یہ انتظام ہو کہ مردا نہ سے سابقہ نہ رکھیں اور اپنی مستورات سے نگرانی کرائے ان سے خود بات چیت تک بھی نہ کریں۔([5])
واللہ اعلم بالصواب
[1] : تحفہ براے خواتین ج 1ص 21
[2] : فتیم المسائل ج6 ص209 مکتبہ تفہیم القران مردان
[3] : کتاب النوازل جلد14ص 243 مکتبہ دارلاشاعت
[4] :فتاوی عثمانیہ ج 10ص 99 مکتبہ العصرا کیڈمی
[5] : فتاوی عثمانیہ ج 10ص 99 مکتبہ العصرا کیڈمی