سوال نمبر :کیا مسلمانوں کےلئے سالگرہ منانا جائز ہے یعنی  برتھ ڈے (سالگرہ )منانا شریعت کی رو سے کیسا ہے ؟

سوال نمبر :کیا مسلمانوں کےلئے سالگرہ منانا جائز ہے یعنی  برتھ ڈے (سالگرہ )منانا شریعت کی رو سے کیسا ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق

برتھ ڈے کا معنیٰ ہے “یوم پیدائش” اور برتھ ڈے منانا یوم پیدائش منانے کو کہتے ہیں۔جس کو سالگرہ بھی کہا جاتا ہے۔

سالگرہ یہودونصاریٰ غیر مسلموں کی ایک ایجاد کردہ رسم ہے۔ اور مسلمانوں کے لئے غیروں کا طریقہ اپنانا جائز نہیں ہے نہ ہی اس پر مبارکباد دینا جائز ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے”وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہ”([1])

قرآن کریم میں  دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ﴾([2])

 “کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر ومشروع کیا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی

 دیگررسوم وعادات کی طرح یہ رسم بھی آج کل کے مسلمانوں میں سرایت کر چکی ہے۔اس دور کے اکثر مسلمان مغرب کی ذہنی  غلامی میں مبتلاءہوچکے ہیں اور ان کے اندھے مقلد بن چکے ہیں۔

رسول اللہﷺ نے پیشنگوئی فرمائی تھی:” لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ ، قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، الْيَهُودُ ، وَالنَّصَارَى ، قَالَ : فَمَنْ[3])

یعنی   میری امت کے لوگ، اگلی امتوں کے طریقوں کی پیروی کریں گے، بالشت برابر بالشت یعنی بالکل ان کے قدم بہ قدم چلیں گے) یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گےتو اس میں بھی یہ امت ان کی پیروی کریں گے۔

آج اکثرلوگ اس کے مصداق بن چکے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو حتی الوسع ان کی مخالفت کرنی چاہیے تھی۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نےان کی مخالفت اور تشبہ  سے  اجتناب کا درس دیا ہے حتی کہ فرمایا ہے ۔
”حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، ‏‏‏‏‏‏لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ،‏‏‏‏ وَلَا بِالنَّصَارَى ‏‏‏‏([4])

وہ اہم میں سے نہیں جس نے ہمارے علاوہ کسی کی مشابھت  اختیار کی تم    یہود  اور نصاریٰ کی مشابھت مت اختیار کرو ۔

قرآن مجید میں تو “عباد الرحمان” کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان ہوئئ ہے کہ”وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا”([5])

اس آیت کے تحت مفسرین نے “اعیاد الکفار والمشرکین” کو بھی “الزور” کے مصداقات میں شمار کیا ہے مثلاً قرطبی لکھتے ہیں: وَفِي رِوَايَةٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَعْيَادُ الْمُشْرِكِينَ”([6])

صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ “عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى للهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدّ”([7])

جس نے ایسا عمل کیا، جس پرامر نبوی ثابت  نہ ہو، وہ مردود وباطل ہے۔”

سالگرہ کے بارے میں مولانا یوسف لدھیانوی شہید ؒاپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “سالگرہ کی رسم میں اگر کوئی بہت ہی قریبی عزیز شرکت کی دعوت دے تو اس میں شرکت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کہ فضول چیزوں میں شرکت بھی فضول ہے۔  عام حالات میں تحفہ دینا سنت ہے، لیکن سالگرہ کی بناء پر دینا بدعت ہے

” سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لئے جو کارڈز دئیے جاتے ہیں وہ بھی اسی فضول رسم کی شاخ ہے۔ ([8])

پس سالگرہ منانا ان متعدد مفاسد و قبائح کا مجموعہ ہے،جن سے ایک مسلمان کو احتراز کرنا لازم ہے اور مسلمان کو اپنی زندگی کے ہر سال گزرنے پر خود احتسابی اور گزرے سال میں اپنے حسنات و سیئات کا حساب لگانا چاہیے کہ وہ کس جانب رواں ہیں۔اور عَن عُمُرِه فيما أفناهُ سوال(اللہ پوچھے گا کہ عمر کو کس چیز میں صرف کیا) کی جوابدہی کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔اللہ تعالی فرماتا ہے”يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ”([9]

اس کا مفہوم یہ ہےکہ انسان اپنےرب کی طرف جا رہا ہےزندگی کےہر سال گزرنےسےیہ سفر مزید مختصر ہوتا جا رہا ہے تو یہ ہے برتھ ڈے (سالگرہ) کی حقیقت۔ اس کے علاوہ سالگرہ منانے میں دیگر محظورات شریعت  کا بھی ارتکاب ہوتا ہے۔مثلاً فضول خرچی، وقت کاضیاع وغیرہ۔لہٰذا شرعاً  ایسی سرگرمیوں کی ممانعت ہے۔ نیز  صحابہ کرام اور اسلاف امت سے اس قسم کا کوئی فعل ثابت نہیں ہے لہذا ہمیں بھی اس سے اپنے آپ کو بچائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو صحابہ کرام اور اپنے اسلاف کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ‌ فَبِهُدٰٮهُمُ اقۡتَدِهۡ ۡ [10]

”اللہ کے ہدایت یافتہ بندے یہی ہیں، لہٰذا انہی کی اقتدا کریں۔”[i]

واللہ اعلم بالصواب

[1] : سوۃ آل عمران،ایت نمبر :85

[2] : شوری: 21

[3] : صحیح بخاری ج 4 ص3240  رقم الحدیث 7320، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ  ط البشری  ،

[4] : سنن الترمذی ،ج:4،ص:480،ط:دارالحدیث،قاھرہ

[5]  :  الفرقان-72

[6]  : تفسیر قرطبی (ج13 ص79

[7] : صحیح مسلم ج:3،ص:1343،ط:داراحیاء الکتب العلمیہ

[8] :آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 8  الناشر لدھیانی

[9] : سورۃ الانشقاق  6

[10] : سورۃ الأنعام : 90

اپنا تبصرہ لکھیں