سوال :غلطی سے رضاعی بھانجی سے نکاح ہو گیا تو کیا یہ رشتہ درست اور اولاد ثابت النسب ہوگی یا نہیں؟
الجواب بعون الملک الوھاب
اس صورت میں دونوں کا رشتہ آپس میں رضاعی ماموں اور رضاعی بھانجی کا ہے اس لیے یہ نکاح جائز نہیں ہے اگر چہ لا علمی میں ہوا تھالہٰذا دونوں پر لازم ہے کہ علیحدہ ہوجائے اور سچی توبہ و استغفار کرے۔اگر نکاح کرتے وقت فریقین کو اس نکاح کی حرمت کا علم نہ تھا تو مذکورہ نکاح نکاح فاسد ہے اور نکاح فاسد سے ہونے والی اولاد کا نسب ثابت ہوتا ہے اس لیے اولاد ثابت النسب ہوگی۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمۡ اُمَّهٰتُكُمۡ وَبَنٰتُكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ وَعَمّٰتُكُمۡ وَخٰلٰتُكُمۡ وَبَنٰتُ الۡاٰخِ وَبَنٰتُ الۡاُخۡتِ وَاُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِىۡۤ اَرۡضَعۡنَكُمۡ وَاَخَوٰتُكُمۡ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمۡ وَرَبَآئِبُكُمُ الّٰتِىۡ فِىۡ حُجُوۡرِكُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِىۡ دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ فَاِنۡ لَّمۡ تَكُوۡنُوۡا دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ وَحَلَاۤئِلُ اَبۡنَآئِكُمُ الَّذِيۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِكُمۡۙ وَاَنۡ تَجۡمَعُوۡا بَيۡنَ الۡاُخۡتَيۡنِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا[1]
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پُھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دُودھ پلایا ہو، اور تمہاری دُودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔۔۔۔ اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلّقِ زن و شو ہوچکا ہو۔ورنہ اگر ﴿صرف نکاح ہوا ہو اور﴾ تعلقِ زن و شو نہ ہوٴا ہو تو ﴿انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں﴾ تم پرکوئی مواخذہ نہیں ہے ۔۔۔۔ اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صُلب سے ہوں۔ اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ بھانجی سے نکاح کرنا حرام ہے اور اگر غلطی سے نکاح ہوا ہے تو نکاح فاسد ہے اور اولاد ثابت النسب ہوگی۔
ترمذی میں حدیث ہے:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مِنْ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنْ النَّسَبِ[2]
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کردیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔
مسلم شریف میں حدیث ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدَ عَلَى ابْنَةِ حَمْزَةَ، فَقَالَ: إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، وَيَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّحِمِ[3]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی (کے ساتھ نکاح کرنے) کے بارے میں خواہش کا اظہار کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے لیے حلال نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے اور رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو رحم (ولادت اور نسب) سے حرام ہوتے ہیں۔
وقال الحسن:
إذا تَزَوَّجَ مَحْرَمَةً فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَلَهَا مَا أَخَذَتْ وَلَيْسَ لَهَا غَيْرَهُ[4]
اگر کسی نے کسی ایسی عورت سے نکاح کیا جو اس پر حرام ہو، تو ان دونوں کے درمیان جدائی کر دی جائے گی، اور عورت کو وہی ملے گا جو اس نے لیا ہو، لیکن اس کے لیے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
[1] : النساء:22
[2] : جامع الترمذی ابواب الرضاع ج: 1،ص:392، حدیث نمبر: 1146مکتبہ لدھیانوی
[3] : الصحیح المسلم کتاب الرضاع۔ باب تحریم ابنۃ الاخ من الرضاعۃ، ج:1 ،ص: 539 ،حدیث نمبر: 3583 مکتبہ رحمانیہ
[4] : كشف الباری شرح صحیح البخاری ص: 594 مکتبہ الفاروقیہ