سوال: عامر نے ایک لڑکی سے نکاح کیا ہے اور ان کےبچے بھی پیدا ہوئے ہیں اور اس کے بعد عورت نے شوہر کوکہا کہ میں نے تم کو اور تمہاری بیوی کی ماں کودودھ پلایا تھا لیکن یہ عورت گواہی میں اکیلی ہے آپ سے پوچھنا یہ ہےکہ کیا ایک عورت کی گواہی سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟

سوال: عامر نے ایک لڑکی سے نکاح کیا ہے اور ان کےبچے بھی پیدا ہوئے ہیں اور اس کے بعد عورت نے شوہر  کوکہا کہ میں نے تم کو اور تمہاری بیوی کی ماں کودودھ پلایا تھا  لیکن یہ عورت گواہی میں اکیلی ہے آپ سے پوچھنا یہ ہےکہ کیا ایک عورت کی گواہی سے رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الملک ا لوھاب

اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔

حنفیہ کا مسلک:

امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے یہ ہے کہ رضاعت کا ثبوت دو مردوں کی شہادت یا  ایک مرد  اور دو عورتوں کی شہادت سے ہوسکتا ہے۔

قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡ‌ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُوۡنَا رَجُلَيۡنِ فَرَجُلٌ وَّامۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ[1]

اوراپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اُسے یاد دلائے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔

مولانا گوہر الرحمانؒ تفہیم المسائل میں لکھتے ہیں:

         اس آیت سے شہادت کے لئے دو شرطیں ثابت ہوتی ہیں ایک یہ کہ گوہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اور دوسری  بات یہ کہ گواہ وہ ہوں جن کو تم عادل اور دیانت دار ہوں اور عادل ہونے کی کم از کم شرط یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کریں اور فرائض و واجبات کی پابندی کرتے ہوں یہ آیت اگرچہ مالی معاملات کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ارضاع ( دودھ پلانے کا دعوی ) کا دعوی بعض اوقات مالی اجرت کا دعوی بن جاتا ہے اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی عورت دودھ پلانے کا دعوی کر کے اجرت اور معاوضے کا مطالبہ کرے اور معاملہ مالی تنازعے کی شکل اختیار کرے اس امکان کی وجہ سے امام ابو حنیفہؒ نے ارضاع کی شہادت کو مالی معاملے میں شہادت کی حیثیت دی ہے اور اس کے ثبوت کے لئے وہی شرطیں لگائی ہیں جو مالی تنازعے کی شہادت کے لئے ہیں۔ یعنی کہ گواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ [2]

در مختار میں ہے:

وَحُجَّتُهُ حُجَّةُ الْمَالِ وَهِيَ شَهَادَةُ عَدْلَيْنِ أوعَدْلٍ وَعَدْلَتَيْنِ[3]

رضاعت کا ثبوت وہی ہے جو مال کا ہے اور وہ ہے دو مردوں کی شہادت یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت۔

تو حنفیہ کے ہاں ثبوت رضاعت کے دو مردوں کی شہادت یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت لازم ہے۔

شافعیہ کا مسلک:

         امام شافعیؒ  کی رائے یہ ہے کہ رضاع  میں تنہا عورتوں کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے لیکن دینےوالی عورتیں چار ہونی چاہیئں۔[4]

مالکیہ کا مسلک:

         امام مالکؒ اور اس کے تلمیذ ابن القاسم ؒ کی رائے یہ ہے کہ رضاعت کا ثبوت دو عورتوں کی شہادت سے بھی ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ان گواہی دینے والی عورتوں کا قول شہادت سے پہلے خاندان اور آس پاس کے لوگوں میں مشہور ہو اگر ایک ہی عورت ( مرضعہ ) نے گواہی دی ہو تو حرمت نکاح کے لئے اگر چہ کافی ثبوت نہیں ہے لیکن حنفیہ کی طرح مالکیہ بھی احوط وافضل یہی سمجھتے ہیں کہ علیحدگی اختیار کرلی جائے مگر یہ علیحدگی واجبی حکم نہیں ہے ۔[5]

حنابلہ کا مسلک:

         امام احمد بن حنبلؒ  فرماتے ہیں کہ صرف ایک مرضعہ کی شہادت سے بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے بشرطیکہ یہ عادلہ ہو۔[6]

ائمہ اربعہ کی مذکورہ آراء اس صورت سے متعلق ہیں جب کہ شهادت  دینے والی مرضعہ عادلہ ہو متقیہ ہو اور زوجین یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ اس کی عداوت اور عناد نہ ہو ورنہ پھر چاروں ائمہ کے نزدیک اس کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس لئے کہ قبول شہادت کے لئے عادل ہونا بھی بالا جماع شرط ہے اور خصومت و عداوت رکھنے والے کی گواہی بھی مقبول نہیں ہے۔[7]

مولانا گوہر رحمان ؒ  لکھتے ہیں:

         میری رائے میں حنفیہ ؒ شافعیہؒ ، مالکیہؒ اور امام احمدؒ کی روایت شازہ میں جو کہا گیا ہے وہی صحیح ہے کہ حرمت رضاعت تو ایک عورت کی گواہی سے ثابت نہیں ہوتی مگر احوط یہی ہے کہ علیحدگی اختیار کر لی جائے لیکن بچے پیدا ہونے اور کافی مدت گزر جانے کی وجہ سے علیحدگی میں دشواری ہو تو رخصت اور یسر پر عمل کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ جمہور ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ ایک عورت کی گواہی سے حرمت ثابت نہیں ہوتی صرف احتیاط و استحباب کے طور پر علیحدگی کا حکم دیا گیا ہے اور استحبابی و احتیاطی حکم کو دشواری اور پریشانی کی وجہ سے ترک بھی کیا جاسکتاہے۔

عثمان بن عفان بھی صرف مرضعہ کی شہادت پر زوجین کے درمیان فراق کا حکم دیتے تھے لیکن جمہور صحابہ کی رائے اس کے خلاف تھی۔[8]

واللہ اعلم با الصواب

[1] : البقرہ:282

[2] : تفہیم المسائل ،ج:1،ص:148 مکتبہ تفہیم القران مردان

[3] : در مختار ،ج:2،ص:568 مصری

[4] : تفہیم المسائل ،ج:1،ص:151 مکتبہ تفہیم القران مردان

[5] : تفہیم المسائل ،ج:1،ص:151 مکتبہ تفہیم القران مردان

[6] : تفہیم المسائل ،ج:1،ص:151 مکتبہ تفہیم القران مردان

[7] : تفہیم المسائل ،ج:1،ص:154مکتبہ تفہیم القران مردان

[8] : تفہیم المسائل ،ج:1،ص:154-155مکتبہ تفہیم القران مردان

اپنا تبصرہ لکھیں