سوال  :  شریعت میں بل آف ایکسچینج کی بیع جائز ہے یا نہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ ہنڈی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

سوال  :  شریعت میں بل آف ایکسچینج کی بیع جائز ہے یا نہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ ہنڈی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق.

جناب بل آف ایکسچینج(Bill of Exchange) ایک خاص قسم کی دستاویز ہے جب کوئی بندہ اپنا مال فروخت کرتا ہے تو اکثر خریدار کے نام پر بل بناتا ہے کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ یہ بل کئی روز بعد خریدار کو مل جاتا ہے( یعنی فوری طور پر نہیں ملتا ) اس بل کو دستاویزی شکل دینے کیلئے مشتری اس کو قبول کرکے اس پر دستخط کرتا ہے مطلب یہ کہ مشتری کے ذمہ پر مقررہ  دن  اس بل کی ادائیگی واجب اور ضروری ہے اس کو بل آف ایکسچینج (یعنی ہنڈی) کہا جاتا ہے  اور بعض اوقات میں اس کے واسطے پر دین کی توثیق کی جاتی ہے۔

اسلام اور جدیدمعاشی مسائل میں مفتی تقی عثمانی  حفظہ اللہ لکھتے ہیں ” بعض اوقات دین کی تو ثیق اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک دستاویز لکھی جاتی ہے جس پر یہ تحریر ہوتا ہے کہ وہ مشتریبائع کی اتنی رقم کا اتنی مدت کے لئے مدیون ہے، اور وہ یہ رقم فلاں تاریخ پر بائع کو ادا کر دے گا ۔ اور پھر اس پر مشتری اپنا دستخط کر دیتا ہے ۔ آج کل اس دستاویز کو بل اف ایکسچینج  کہا جاتا ہے اور جس تاریخ پر مشتری دین ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اس کو (Maturity Date)   کہا جاتا ہے ۔ اور شرعا  دستاویز کے زریعہ دین کی توثیق جائز ، بلکہ مندوب ہے ۔ اس لئے کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے

یـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیۡنٍ إِلَىٰۤ أَجَل مسمی فَٱكۡتُبُوهُۚ”  [1]

اے ایمان والو ! جب معاملہ کرنے لگو ادھار کا ایک میعاد متعین تک تو اس کو لکھ لیاکرو لیکن مشکل یہ ہے کہ آج کل کے لین دین میں یہ دستاویز قابل انتقال آلہ بن چکا ہے ۔

اور بائع جواصل دائن اور دستاویز ہے ، وہ بعض اوقات یہ دستاویز تیسرے شخص کو اس پر تحریر شدہ دین کی مقدار سے کم پر بیج دیتا ہے تا کہ معین تاریخ سے پہلے اس کو رقم وصول ہوجائے ۔ اس بیع کو بل کی کٹوتی کہا جاتا ہے ، لہذاحامل دستاویز جب رقم وصول کرنا چاہتا ہے تو وہ تیسرے شخص کے پاس چلا جاتا ہے ۔اور وہ تیسراشخص اکثر حالات میں بینک ہوتا ہے ، اور وہاں جا کر وہ دستاویز اس کے حوالے کر دیتا ہے ۔

 اور بینک اس کےانڈورسمنیٹ(Indorsement) کے بعد وہ دستاویز قبول کر لیتا ہے ۔ اور بینک دستاویز پرتحریر شده رقم میں سے فیصد کے اعتبار سے کٹوتی کر کے باقی رقم حامل کے حوالے کر دیتا ہے

 انڈ ورس منٹ کا طریقہ یہ ہے کہ حامل دستاویز اس دستاویز کی پشت پر دستخط کر دیتا ہے ، جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ دستاویز کا حامل بینک کے حق میں اس رقم سے دستبردار ہورہا ہے اور بل آف ایکسچینج کی کٹوتی مندرجہ بالا طریقہ پر کرنا شرعا نا جائز ہے ، اس لئے کہ یا تو یہ دین کی بیع اس شخص کے ساتھ کی جارہی ہے جس پر دین نہیں ۔ جس کوفقہا ءکی اصطلاح میں ” بیع الدین من  غیرمن علیہ الدین کہا جاتا ہے ، یا  یہ کرنسی کی بیع کرنسی سے ہورہی ہے ، جس میں کمی زیادتی اور ادھار دونوں ممنوعات پائی جاتی ہیں۔

 اور احادیث ربا میں اس قسم کی بیع کا ناجائز ہونامنصوص ہے ۔

لیکن مندرجہ بالا معاملے کو تھوڑی سی تبدیلی کے ذریعہ درست کیا جاسکتا ہے ۔

اس طرح کہ اول حامل دستاویز بینک کومشتری  دستاویز جاری کرنے والا سے دین وصول کرنے کا وکیل بنادے ، اور اسی وکالت پر  یہ شخص بینک کو کچھ اجرت بھی دیدے، اس کے بعد نئے معاملہ کے ذریعہ یہ شخص دستاویز پر تحریر شدہ رقم کے بقدر بینک سے قرض لے لے اور بینک کو اس کا اختیار دیدے کہ جب مشتری سے اس دستاویز کے عوض رقم وصول ہو جائے تو وہ اس رقم سے اپنا قرض وصول کر لے ، اس طرح یہ دو معاملات علیحدہ علیحدہ ہو جائیں گے ۔

پہلا معاملہ یہ کہ یہ شخص بینک کو قرض وصول کرنے کے لئے کسی معین اجرت پر اپنا وکیل بنادے ، اور دوسرا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود بینک سے قرض لے لے اور بینک کو دستاویز کے بدلے وصول ہونے والی رقم سے اپنا قرض وصول کرنے کا اختیار دیدے ۔لہذا شرعی لحاظ سے یہ دونوں معاملات درست ہو جائیں گے ۔

 پہلا معاملہ تو اس لئے درست ہے کہ اس میں اجرت پروکیل بنانا ہے اور شرعا اجرت پر وکیل بنانا جائز ہے اور دوسرا معاملہ اس لئے درست ہے کہ اس میں کسی زیادتی کی شرط کے بغیر قرض کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور شرعا یہ بھی جائز ہے۔  [2]

ہنڈی کی شرعی حیثیت :۔ رقم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے پر اجرت اور اس پر اپنا حق محنت وصول کرنا ہنڈی کہلاتا ہے موجودہ دور میں ہنڈی کے کاروبار پر عقد حوالہ کی تعریف بھی صادق آتی ہے محدثین اور فقہاء کے اصطلاح میں ہنڈی کے کاروبار سفتجة  سے تعبیر کیا گیا ہے شرعی لحاظ سے سفتجة یعنی ہنڈی کے کاروبار کی ممانعت صراحتا حدیث میں  نہیں ہے البتہ فقہاءکرام نے قرض سے استفادہ کی ممانعت پر قیاس کرتے ہوئے اس معاملہ کو مکروہ کہا ہے چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں

 “السفتجة  وھو الشئ المحکم سمی ھذا القرض بہ الاحکام امرہ کما فی الفتح وغیرہ ۔ قال امام شافعی وکرہت السفتجة وهي اقراض لسقوط خطر الطريق وفي الشامية وصورتها ان يدفع الى تاجر مالا قرضا لدفعه الى صديقه وان ما يدفعہ قرضا لا امانة يستفيد به لسقوط خطر الطريق” [3]

آگے وہ مزید لکھتے ہیں وان كان لسفتج مشروطا في القرض فهو حرام والقرض لهذا الشرط فاسد والا جاز وسورة الشرط كما في الواقعات  رجل اقرض رجلا مالا علی ان یکتب  له بها الى بلد كذا فانه لا يجوز وان اقرض بلا شرط وكتب جاز وروی عن ابن عباس رضي الله تعالى عنه ذلك الا ترى انه لو قضاء احس مما عليه لا يكره اذا لم يكن مشروطا قال انما يحل ذلك عند عدم الشرط اذا لم يكن فيه عرف ظاهرا فان كان يصرف ان ذلك يفصلوا كذلك فلا” [4]

مفتی محمد سلیمان پوری کتاب النوازل میں لکھتے ہیں ۔

 موجودہ دور میں  ہنڈی کے کاروبار پر عقد حوالہ کی تعریف صادق آتی ہے اور ساتھ میں ہنڈی پہنچانے والے کی مقررہ جگہ تک رقم پہنچانے کی محنت کرنی پڑتی ہے اس کی اجرت بھی شرعاً ممنوع نہیں ہے اس لیے منی آرڈر فارم اور بینکوں کے ڈرافٹ کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہونا چاہیے اور حکومت سے چھپ کر کام کرنا حرمت کی علت نہیں بن سکتا کیونکہ حکومت کی پابندی خود بے محل ہے۔

آگے مزید لکھتے ہیں کہ ہنڈی  میں جواز کی شکل یہ ہوسکتی ہے کے طور پر پیسہ منتقل کرنے والا شرعا اجیر بن جائے اور اپنے عمل کی اجرت متعین طور پر رہا مالک سے وصول کریں تو یہ معاملہ منی آرڈر کے حکم میں ہو کر دائرہ جواز میں آجائے گا اور اپنے ملک سے کسی دوسرے ملک میں دوائی منتقل کر نے کا کاروبار کرنا فی نفسہ جائز ہے اور اس کی آمدنی  جائز ہے لیکن بعض ممالک میں اسی طرح کا کاروبار کرنا غیر قانونی ہے اس لئے اس میں جان ومال کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اسی بنا اس کاروبار سے اپنے آپ کو بچائیں  تاکہ جان و مال کی حفاظت ہو ”کما قال اللہ تعالی  ” وَلَا تُلۡقُوا۟ بِأَیۡدِیكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِ وَأَحۡسِنُوۤا۟ۚ إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِینَ” [5]

الموسوعۃ الفقہیہ  میں لکھا گیا ہے کہ” وَالْحُكْمُ فِي ذَلِكَ يَخْتَلِفُ؛ لأَنَّهُ إِمَّا أَنْ يَكُونَ الْكِتَابُ الَّذِي يَكْتُبُهُ الْمُسْتَقْرِضُ لِوَكِيلِهِ (وَهُوَ السُّفْتَجَةُ) مَشْرُوطًا فِي عَقْدِ الْقَرْضِ أَوْ غَيْرَ مَشْرُوطٍ.فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ مَشْرُوطًا فِي عَقْدِ الْقَرْضِ فَهُوَ حَرَامٌ وَالْعَقْدُ فَاسِدٌ؛ لأَنَّهُ قَرْضٌ جَرَّ نَفْعًا فَيُشْبِهُ الرِّبَا؛ لأَنَّ الْمَنْفَعَةَ فَضْلٌ لاَ يُقَابِلُهُ عِوَضٌ، وَهَذَا عِنْدَ جُمْهُورِ الْفُقَهَاءِ (الْحَنَفِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَبَعْضِ فُقَهَاءِ الْمَالِكِيَّةِ وَرِوَايَةٌ عَنْ أَحْمَدَ) وَذَكَرَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ أَنَّ مَالِكًا كَرِهَ الْعَمَل بِالسَّفَاتِجِ بِالدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا، وَأَجَازَ ذَلِكَ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَهْل الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ أَيْضًا أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِذَلِكَ، وَالأَشْهَرُ عَنْهُ كَرَاهِيَتُهُ لَمَّا اسْتَعْمَلَهُ النَّاسُ مِنْ أَمْرِ السَّفَاتِجِ. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ أَحْمَدَ جَوَازُهَا لِكَوْنِهَا مَصْلَحَةً لَهُمَا جَمِيعًا” [6]

علماء نے بڑی مشکل کی وجہ سے  اور راستے میں ہر وقت خطرے کی وجہ سے اس کے جواز کا حکم بیان کیاہے اگر چہ اجتناب افضل ہے ہاں اگر الگ الگ کرنسی ہو تو اس میں زیادتی کے ساتھ تبادلہ کرنا   جائز ہے بلکہ مستحب ہے  صرف ایک جانب  سے نقد ادائیگی لازم ہے۔

فَإِذَا كَانَ الْخَوْفُ عَلَى النَّفْسِ أَوِ الْمَال غَالِبًا لِخَطَرِ الطَّرِيقِ فَلاَ حُرْمَةَ فِي الْعَمَل بِالسُّفْتَجَةِ بَل يُنْدَبُ ذَلِكَ تَقْدِيمًا لِمَصْلَحَةِ حِفْظِ النَّفْسِ وَالْمَال عَلَى مَضَرَّةِ سَلَفٍ جَرَّ۔[7]

شیخ القرآن  مولانا گوہر رحمان ؒ تفہیم المسائل میں لکھتے ہیں :

ہنڈی کا جو طریقہ آج کل مروج ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ ایک شخص امارات کے درھم یا کویت کے دینار  یا برطانیہ کے پونڈ  پاکستانی کرنسی کے بدلے میں  کسی شخص پر طے شُدہ قیمت پر فروخت کرتا ہے اور پاکستان میں فروخت کنندہ  کا وکیل  خریدار کے وکیل سے پاکستان کرنسی میں طے شُدہ قیمت وصول کر لیتا ہے۔  اس پر کوئی شرعی اعتراض وارد نہیں ہوتا اس لئے کے دو ملکوں کے کرنسیاں مالیت  اور نوعیت کے اعتبار سے متجانسین  بھی نہیں  ہیں  اور یہ مکیلات اور موزونات بھی نہیں ہیں بلکہ عددیات ہیں اور ایسے چیزوں کا لین دین میں سوا ء بسواء اور یدا بید شرط نہیں ہےبلکہ کمی بیشی بھی جائز ہے اور اُدھار قیمت مقرر کرنا بھی جائز ہے۔اسی طرح خرید و فروخت اور ادائیگی و وصولی خود بھی کی جاسکتی ہے اور وکیلوں کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہے۔[8]

واللہ اعلم بالصواب

[1] : البقرۃ – 282

[2] : اسلام اور جدید معاشی مسائل ج3۔ ص106-105 ۔ طبع ادارہ اسلامیات

[3] : الدرالمختار مع الردالمحتار ج 6۔ ص 295 ۔ طبع دارلکتب العلمیہ

[4] : ایضا ص 296

4 : کتاب النوازل جلد 12 صفحہ 407/408

[6]  : الموسوعۃ الفقہیہ  -ج25-ص25-طبع انوار القرآن کتب خانہ

[7] : ایضا ص26

[8] : تفہیم المسائل -ج6-ص446-طبع مکتبہ تفہیم القرآن مردان

اپنا تبصرہ لکھیں