سوال :سلام کے بعد عرض کیجاتی ہے کہ میں کسی کام کے سلسلے میں اپنا ماہانہ ملنے والا تنخواہ فروخت کر سکتا ہوں یا نہیں وضاحت فرمائیں؟

سوال :سلام کے بعد عرض کیجاتی ہے کہ میں کسی کام کے سلسلے میں اپنا ماہانہ ملنے والا تنخواہ فروخت کر سکتا ہوں یا نہیں وضاحت فرمائیں؟

الجواب وباللہ التوفیق

چونکہ  شریعت مطہرہ میں  ہر چیز  کےلئے کچھ اُصول و ضوابط ہے  اس طرح بیع کے لئے بھی شریعت میں کچھ اُصول  ہیں ۔ ان اُصولوں میں سے ایک اصل  یہ ہے  کہ شریعت میں مجہول چیز کا بیع جائز نہیں ۔

ملنے والی تنخواہ کی بیع کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے متعلقہ ادارے سے ملنے والی تنخواہ وصول کرنے سے پہلے آگے فروخت کردے تو یہ شرعاً جائز نہ ہوگا  اس لئے کہ یہ دین کی بیع غیر مدیون سے کی گئی ہے دوسرا یہ کہ اس میں سود بھی آتا ہے اس لیے کہ اس صورت میں یہ شخص مثلاً زید  سے کہتا ہے کہ آپ مجھے میری تنخواہ کے بدلے میں بیس ہزار روپے ابھی دے دیں میں اپنی تنخواہ کی رسید پر دستخط کر دیتا ہوں چند دن بعد آپ بینک کو جا کر پورے ایکیس ہزار روپے وصول کر لیجئے گا تو یہ تو صاف سود کا معاملہ ہے لہٰذا جائز نہ ہوگا۔ ”قال

 اللّٰہ تعالی” وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلۡبَیۡعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟۔[1]

“حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام”۔

تیسرا یہ کہ یہ شخص ابھی اس تنخواہ کا مالک نہیں بنا ہوا ہے اور غیر مملوک اور غیر مقبوض چیز کی بیع کرنا جائز نہیں ہے۔

امام نسائی نے حکیم بن حزام کے روایت پر ایک حدیث نقل کیا ہے۔

عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَبِيعُهُ مِنْهُ ثُمَّ أَبْتَاعُهُ لَهُ مِنْ السُّوقِ قَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔[2]

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم  ﷺ  سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز بیچنے کا مطالبہ کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی ۔ میں اس سے اس کا سودا کر لیتا ہوں ، پھر میں اسے بازار سے خرید کر لا دیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا :’’ جو چیز تیرے پاس نہیں ، اس کا سودا نہ کر ۔‘‘

علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں   ”ومنها أن يكون مملوكا لان البیع تملیک فلا ینعقد فیما ليس بمملوك”: وبیع الدین  لا يجوز ولو باعه من المديون أو وهبه جاز“([3])

الاشباہ ونظائر میں علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں کہ  ”وبیع الدین  لا يجوز ولو باعه من المديون أو وهبه جاز’([4])

عربی زبان میں ماہانہ یا سالانہ تنخواہ کو جامکیہ کہتے ہے۔

فقہ البیوع میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جامکیہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قد ذکر الفقهاء المتأخرون نوعا منها تسمیالجامکیة۔وهی عبارة عن ورقة کانت تصدر من بیت المال أو من ناظر الوقف۔ اور آگے مزید لکھتے ہے وقد افتی الفقہاء من الحنفیۃ والحنابلۃ بان بیع الجامکیۃ لا یجوز لکونہ بیع الدین من غیر من علیہ و اجازہ الحطاب من المالکیۃ۔[5]

یہ نام ہے اس تنخواہ کا جو کہ پرانے زمانے میں حکومت وقت کی طرف ملازمین کو ملا کرتی تھی۔ فقہاء میں سے حنفیہ اور حنابلہ نے جامکیہ کی بیع کو نا جائز قرار دیا ہے کیونکہ یہ اس شخص کو دین بھیج کر دینا ہے کہ جس پر دین نہیں ہے، لیکن مالکیہ میں سے امام حطاب نے اس بیع کو جائز کہا ہے ۔

بیع جامکیہ کے بارے رد المحتار میں لکھتے ہے:

سُئِلَ عَنْ بَيْعِ الْجَامِكِيَّةِ: وَهُوَ أَنْ يَكُونَ لِرَجُلٍ جَامَكِيَّةٌ فِي بَيْتِ الْمَالِ وَيَحْتَاجَ إلَى دَرَاهِمَ مُعَجَّلَةٍ قَبْلَ أَنْ تُخْرَجَ الْجَامِكِيَّةِ فَيَقُولَ لَهُ رَجُلٌ: بِعْتنِي جَامِكِيَّتَك الَّتِي قَدْرُهَا كَذَا بِكَذَا، أَنْقَصَ مِنْ حَقِّهِ فِي الْجَامِكِيَّةِ فَيَقُولَ لَهُ: بِعْتُكَ فَهَلْ الْبَيْعُ الْمَذْكُورُ صَحِيحٌ أَمْ لَا لِكَوْنِهِ بَيْعَ الدَّيْنِ بِنَقْدٍ أَجَابَ إذَا بَاعَ الدَّيْنَ مِنْ غَيْرِ مَنْ هُوَ عَلَيْهِ كَمَا ذُكِرَ لَا يَصِحُّ قَالَ: مَوْلَانَا فِي فَوَائِدِهِ: وَبَيْعُ الدَّيْنِ لَا يَجُوزُ وَلَوْ بَاعَهُ مِنْ الْمَدْيُونِ أَوْ وَهَبَهُ جاز۔[6]

بہر حال خلاصہ یہ ہوا کہاپنے تنخواہ اُصول کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

[1] : البقرہ -275

[2] : سنن نسائی، حدیث 4617

[3] :  بدائع الصنائع, ج 4, ص 339، طبع مکتبہ دارالکتاب

[4] : الاشباہ والنظائر، ص 309،طبع مکتبہ حقانیہ ۔

[5] : فقہ البیوع، ج 1 ، ص 352 ، مکتبہ معارف القرآن کراتشی باکستان

[6] : حاشیہ ابن عابدین ،ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج14،ص60،طبع مکتبہ الطارق،فقرہ 22268

اپنا تبصرہ لکھیں