سوال: زمانۂ جاہلیت میں رائج شادی کے مختلف طریقے کون کون سے تھے؟
الجواب بعون الملک الوہاب
زمانہ جاہلیت میں شادی کے درجہ ذیل طریقے رائج تھے۔
بخاری شریف میں حدیث ہے:
عَنْ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوْ ابْنَتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ وَنِكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمْ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلَّا نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ[1]
عروہ بن زبیر سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبردی کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح چار طرح ہوتے تھے ۔ ایک صورت تویہی تھی جیسے آج کل لوگ کرتے ہیں ، ایک شخص دوسرے شخص کے پا س اس کی زیر پرورش لڑکی یا اس کی بیٹی کے نکاح کا پیغام بھیجتا اور اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا ۔ دوسرا نکاح یہ تھا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی سے جب وہ حیض سے پاک ہوجاتی تو کہتا تو فلاں شخص کے پاس چلی جا اور اس سے منہ کالا کر الے اس مدت میں شوہر اس سے جدا رہتا اور اسے چھوتا بھی نہیں ۔ پھر جب اس غیر مر د سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا جس سے وہ عارضی طور پر صحبت کرتی رہتی ، تو حمل کے ظاہر ہونے کے بعد اس کا شوہر اگر چاہتا تو اس سے صحبت کرتا ۔ ایسا اس لئے کرتے تھے تاکہ ان کا لڑکا شریف اور عمدہ پیدا ہو ۔ یہ نکاح ” استبضاع “ کہلاتاتھا ۔ تیسری قسم نکاح کی یہ تھی کہ چند آدمی جو تعداد میں دس سے کم ہوتے کسی ایک عورت کے پاس آنا جانا رکھتے اور اس سے صحبت کرتے ۔ پھر جب وہ عورت حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو وضع حمل پرچند دن گزرنے کے بعد وہ عورت اپنے ان تمام مردوں کو بلاتی ۔ اس موقع پر ان میں سے کوئی شخص انکا ر نہیں کرسکتا تھا ۔ چنانچہ وہ سب اس عورت کے پاس جمع ہو جاتے اور وہ ان سے کہتی کہ جو تمہارا معاملہ تھاوہ تمہیں معلوم ہے اور اب میں نے یہ بچہ جناہے ۔ پھر وہ کہتی کہ اے فلاں ! یہ بچہ تمہاراہے ۔ وہ جس کا چاہتی نام لے دیتی اور وہ لڑکا اسی کا سمجھا جاتا ، وہ شخص اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتاتھا ۔ چوتھا نکاح اس طور پر تھا کہ بہت سے لوگ کسی عورت کے پاس آیاجایا کرتے تھے ۔ عورت اپنے پاس کسی بھی آنے والے کوروکتی نہیں تھی ۔ یہ کسبیاں ہوتی تھیں ۔ اس طرح کی عورتیں اپنے دروازوں پرجھنڈے لگائے رہتی تھیں جو نشانی سمجھے جاتے تھے ۔ جو بھی چاہتا ان کے پاس جاتا اس طرح کی عورت جب حاملہ ہوتی اور بچہ جنتی تو اس کے پاس آنے جانے والے جمع ہو تے اور کسی قیافہ جاننے والے کو بلاتے اور بچہ کاناک نقشہ جس سے ملتا جلتا ہو تا اس عورت کے اس لڑکے کو اسی کے ساتھ منسوب کر دیتے اوروہ بچہ اسی کا بیٹا کہا جا تا ، اس سے کو ئی انکار نہیں کر تا تھا ۔ پھر جب حضرت محمد ﷺ حق کے ساتھ رسول ہو کر تشریف لائے آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو باطل قرار دے دیا صرف اس نکاح کو باقی رکھا جس کا آج کل رواج ہے۔
عام نکاح:
یہ وہ نکاح ہے جو آج تک بھی موجود ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر دست سے نکاح کا پیغام دیا جاتا ہے پھر وہ مناسب مہر اور گواہوں کے ساتھ اس لڑکے کا نکاح اس آدمی سے کر دیتا ہے۔
زواج البعولہ :
زمانہ جاہلیت میں یہ نکاح اہل عرب میں بہت عام تھا۔ کہ مرد بیک وقت بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا۔ اس نکاح میں عورت کی حیثیت عام مال ومتاع کی طرح ہوتی۔
زواج البدل :
اس کا مطلب ہےبدلے کی شادی،دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ کرنا۔یعنی ایجاب و قبول اور مہرکے بغیر اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتےلیکن اس کا علم عورتوں کو نہ ہوتا۔
نکاح متعہ :
نکاح متعہ سے مراد وہ نکاح ہے ، جو ایک خاص مدت کے لئے ہو ” وهو النكاح الى اجل ” یہ وہ نکاح ہے جو ایک خاص مدت کے لئے ہو ۔
صاحب فقہ السنہ تحریر فرماتے ہیں:
وهو ان يعقد الرجل على المراءة يوما او اسبوعا او شھرا [2]
کہ ایک شخص کسی عورت کے ساتھ ایک دن یا ہفتے یا مہینے کے لئے عقد کر لے۔
یہ نکاح بغیر خطبہ، تقریب اور گواہوں کے ہوتا۔اور مقررہ مدت پوری ہونے کے بعدنکاح خود بخود ختم ہوجاتاتھا اور اس نکاح کی وجہ سے پیدا ہونے والی اولاد کی نسبت ماں کی طرف ہوتی اور اسے کو باب کا نام دیا جاتا تھا۔نکاح متعہ کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ[3]
ربیع بن سبرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح متعہ سے منع فرمایا ہے۔
عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَخَّصَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوْطَاسٍ، فِي الْمُتْعَةِ ثَلَاثًا، ثُمَّ نَهَى عَنْهَا[4]
ایاس بن سلمہ نے اپنے والد (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے اوطاس کے سال تین دن متعے کی اجازت دی، پھر اس سے منع فرما دیا۔
عَنْ رَبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ، أَنَّ أَبَاهُ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ، وَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهُ، وَلَا تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا[5]
ربیع بن سبرہ جہنی سے روایے ہےکہ ان کے والد نے انہیں حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: “لوگو! بےشک میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، اور بلاشبہ اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے، اس لیے جس کسی کے پاس ان عورتوں میں سے کوئی (عورت موجود) ہو تو وہ اس کا راستہ چھوڑ دے، اور جو کچھ تم لوگوں نے انہیں دیا ہے اس میں سے کوئی چیز (واپس) مت لو۔
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُتْعَةِ عَامَ الْفَتْحِ، حِينَ دَخَلْنَا مَكَّةَ، ثُمَّ لَمْ نَخْرُجْ مِنْهَا حَتَّى نَهَانَا عَنْهَا[6]
عبدالملک بن ربیع بن سبرہ جہنی نے اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا (سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: فتح مکہ کے سال جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (نکاح) متعہ (کے جواز) کا حکم دیا، پھر ابھی ہم وہاں سے نکلے نہ تھے کہ آپ نے ہمیں اس سے منع فرما دیا۔
نکاح الخدن:
یہ وہ نکاح تھا جو آجکل بھی مغربی معاشرے میں رائج ہے۔یعنی ”دوستی کی شادی” اس میں مرد کسی بھی عورت کوبغیر نکاح آپنے گھر ازدواجی تعلقات قائم کرلیتا اور اس کے بعد باہمی رضامندی سے یہ تعلق ختم ہوجاتااور کسی قسم طلاق کی ضرورت نہیں تھی۔
نکاح شغار:
نکاح شغار یہ ہے کہ ایک شخص اپنی زیر سر پرستی لڑ کی کا دوسرے شخص سے نکاح کر دے اور وہ دوسرا شخص اپنی زیر سر پر ستی لڑ کی کا نکاح اس پہلے شخص سے کر دے اور کچھ مہر نہ ٹھہر ے۔
حدیث میں ہے:
عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الشِّغَارِ وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الْآخَرُ ابْنَتَهُ لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ[7]
نافع ابن عمر رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ” شغار “ سے منع فرمایا ہے ۔ شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی یا بہن کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنی ( بیٹی یا بہن ) اس کو بیاہ دے اور کچھ مہر نہ ٹھہر ے ۔
بعض حضرات نے کہا شغرالكلب اور یہ اس وقت کہا جاتاہے جب کتا پیشاب کےلئے ٹانگ اٹھائے اس میں بھی جانبین کی طرف سے یہ شرط ہوتی ہے لا أرفع رِجل بنتك لا ترفع رِجل بنتى اس لیے اس نکاح کو نکاح شغار کہتے ہیں [8]
شغار کے ناجائز ہونے پر سب کا اتفاق ہے لیکن اگر نکاح شغار کیا گیا تو کیا یہ منعقد ہوگا یا نہیں اس میں اختلاف ہے جمہور علماء کی رائے یہ ہیں کہ نکاح منعقد نہیں ہوگا احناف کے نزدیک منعقد ہوجائے گا اور ایسا ہی ایک قول احمد بن حنبل کابھی ہے اور مہر مثل لازم ہوگا۔
جمہور کی دلیل یہ ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الشِّغَارِ
احناف کی دلیل :
ایک مشہور قاعدہ ہے نھىٰ عن الافعال الشرعية یہ مشروعیت کا تقاضہ کرتی ہے لہٰذا نکاح منعقد ہوگا اور شرط باطل ہوگا عورت مہر مثل کی مستحق ہوگی اس میں احد البعضین کو مہر قرار دینا شرط فاسد ہے اور شرط باطل سے نکاح منعقد ہوتا ہے ۔
جمہور کی دلیل کو یہ جواب دیتے ہیں جاہلیت کے نکاح ہمارے نزدیک بھی ناجائز ہیں اس میں مہر مقرر نہیں ہوتا اور ہم نے جواز کا قول مہر مثل کے ساتھ اختیار کیا ہے یہ شغار ممنوع کے زمرے میں نہیں آتا ۔
نکاح الاستبضاع:
یہ وہ نکاح تھا جو دور جاہلیت میں ایک شخص اپنی بیوی کو کسی خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کےلیے بھیج دیتا اور خود کسی خاص مدت تک اس سے الگ رہتا تھا اس لیے کہ نسل خوبصورت پیدا ہو حمل ظاہر ہونے کے بعد بیوی پھر واپس اپنے شوہر کے پاس آجاتی۔
نکاح الر ہط:
نکاح الرہط یہ ہے کہ ایک عورت کےساتھ تقریباًدس آدمی اکٹھے ہوتےاور اس عورت سے ہر آدمی مباشرت کرتا اور جب بچہ پیدا ہوتاتو عورت نے سب آدمیوں بلواتی اور وہ بغیر کسی عذر پیش کرتے ہوئےآجاتے پھر وہ جسے پسند کرتی تو اسے کہتی کہ یہ تیرا بچہ ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تھی۔
نکاح البغایا:
یہ نکاح بھی رہط کی طرح تھا مگر اس میں دو فرق تھے ایک فرق یہ تھا کہ اس عورت میں دس آدمیوں سے ذیادہ بھی ہوسکتے تھے اور دوسرا فرق یہ تھاکہ جب بچہ پیدا ہوتا توبچہ مردوں کو منسوب کرنا عورت کاکام نہیں بلکہ مرد کاکام ہوتاتھا۔
مذکورہ طریقہ ہائے زواج سے ثابت اور واضح ہوتا ہے کہ عورت کی زمانۂ جاہلیت میں حیثیت مال و متاع کی طرح تھی اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا۔[9]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا[10]
اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبُور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں ۔
اس آیت کا شان نزول یہ تھا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور کیا کرتا تھا کہ مال کمائے اور ان کے ذریعے اپنی بڑائی حاصل کرے۔
زمانہ جاہلیت میں عربوں کی بیویوں کی کوئی خاص تعدادمقرر نہ تھی اس لیے عرب ایک سے زائد شادیاں کرتے تھے اوراس زائد شادیوں کے ذریعے اپنی بڑائی کا اظہار کرتے۔ مگر اسلام نے چار بیویوں کی تعداد مقرر کر دی اسی طرح اسلام نے تعدد ازواج کے لیے بھی شرائط مقرر کیں۔
کیونکہ ارشاد ربانی ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُواْ[11]
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیّت میں لاوٴ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔
واللہ اعلم با الصواب
[1]: الصحيح البخاری کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الا بولی،ج 2 ص 306 مکتبہ لدھیانوی
[2]:فقہ السنہ ج 2 ص 38
[3]:صحیح مسلم،کتاب النکاح ،بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ حدیث نمبر 3426
[4]: صحیح مسلم،کتاب النکاح ،بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، حدیث نمبر3418
[5]: صحیح مسلم،کتاب النکاح ، بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، حدیث نمبر 3422
[6]: صحیح مسلم،کتاب النکاح ،باب بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِيحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، حدیث نمبر3424
[7]:صحیح البخاری ج2 ص 303 مکتبہ لدھیانوی
[8]:کشف الباری شرح صحیح البخاری ص ٢١٦ مكتبه لدهيانوى
[9]:فتح الباري شرح صحيح البخاري، کتاب النکاح، 9 : 182ص 185
[10]:النور:33
[11]النساء ایت 3،4