سوال: رضاعت چھڑوانے کی مدت شریعت میں کیا ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب
مدت رضاعت میں فقہاء کے مابین اختلاف ہے:
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسٰنَ بِوَالِدَيۡهِ حَمَلَتۡهُ اُمُّهٗ وَهۡنًا عَلٰى وَهۡنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِىۡ عَامَيۡنِ اَنِ اشۡكُرۡ لِىۡ وَلِـوَالِدَيۡكَؕ اِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ[1]
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے ان کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں:
وَّفِصٰلُهٗ فِىۡ عَامَيۡنِ کےالفاظ سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے۔ اس مدت کے اندر اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمت رضاعت ثابت ہوگی، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حق میں ہے لیکن امام ابوحنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدت میں بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہوگی۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہوجائے گی۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے۔ سورة بقرہ میں ارشاد ہوا ہے۔
والْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ [2]
مائیں بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو ۔
ابن عباس ؓ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ ماہ ہے، اس لیے کہ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے:
وَحَمْلُہ وَفِصٰلُہ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا [3]
اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا تیس ٣٠ مہینوں میں ہوا۔
یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور ناجائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کردیتا ہے۔[4]
لہذا فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے۔
حضرات صاحبین کی دلیل قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان ہے۔
وَ حَمۡلُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَھرًا[5]
اور وجہ استدلال یہ ہے کہ الله تعالی نے حمل اور فصال دونوں کے لیے تیس ۳۰ ) ماہ کی مدت مقرر فرمائی ہے اور حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے ، لہذا جب تیس میں سے چھ کو نکالیں گے تو لامحال (٢٤) مہینے با قی بچیں گے اور یہی رضاعت کی مدت بنیں گے ۔
ان حضرات کی دوسری دلیل قرآن کریم کا یہ ارشاد:
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ[6]
جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدّت رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچّوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔
اسی طرح حدیث پاک میں ہے:
عن ابن عباس قال: كان يقول:لا رضاع بعد حولين كاملين[7]
کہ دوسال کے بعد رضاعت کا کوئی وجود نہیں ہے۔
مذکور بالا آیات اور آثار سے یہ بات واضح ہوتا ہے کہ مدت رضاعت صرف دو سال ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
[1] : لقمان : 14
[2] : البقرہ:233
[3] : الاحقاف:15
[4] : تفہیم القران ،ج:4،ص:16 ،ادارہ ترجمان القرآن
[5] : الاحقاف : 15
[6] : البقرہ:233
[7] : سنن الدارقطني، کتاب الرضاع، ج:5، ص:306، رقم الحدیث:4363، ط:مؤسسۃ الرسالۃ