سوال :   تیمم کو وضو اور غسل کا خلیفہ ٹھرانے کی وجہ  اور سبب اور دو ہی اعضاء پر اکتفا کیوں باقی پر مسح کیوں نہیں ہے ؟

سوال :   تیمم کو وضو اور غسل کا خلیفہ ٹھرانے کی وجہ  اور سبب اور دو ہی اعضاء پر اکتفا کیوں باقی پر مسح کیوں نہیں ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق

         تیمم کو وضو اور غسل کا خلیفہ ٹھرانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تیمم اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندو پر  ایک خاص انعام ہے جو کہ پانی نہ ہونے یا شدید مرض کے وقت اس انعام کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس انعام کی اہمیت کا اندازه اس سے لگایا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں اور ان پانچ چیزوں میں سے ایک تیمم کرنا بھی ہے اور قرآن کریم میں بھی ہے کہ اللہ تعالی کسی بھی انسان کو اس کام کا مکلف ٹھہراتے ہیں جو اس کی طاقت اور وسعت میں ہو. پھر آسانی کی مختلف صورتوں میں سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ جس چیز کے کرنے میں حرج لازم آئے اس کو ساقط کر کے اس کی بدل تجویز کر لیا جائے اس کی حکمت کے پیش نظر بارگاہ عالی میں وضو غسل کی جگہ تیمم کا حکم صادر کیا گیا اور اس سے تیمم کو ایک وجود تشبہی حاصل ہوگی کہ منجملہ طہارت میں سے ایک طہارت ہے اور تیمم کا یہ فیصلہ.  وقضاء ان امور عظیمہ میں سے ایک ہے جن کے ذریعے امت محمد یہ کو دوسری امتوں پر فوقیت ہے۔

تیمم کا سبب نزول اس طرح ہے کہ غزوہ مرسیع میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا تھا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھن اسے تلاش کرنے کے لئے ٹہر گئے اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا قریب میں پانی بھی نہیں تھا تو اللہ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا .تیمم میں چہرے اور ہاتھوں کی تخصیص کی وجہ یہ ہےاعضاء کے ساتھ خاص ہونا دو وجوہ سے قیاس و حکمت کےعین موافق ہے.

۱ :ایک تو یہ کہ مٹی کا سر پرڈالنا عام لوگوں کی عادت میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے کہ ایسا تو مصائب و تکالیف کے وقت کیا جاتا ہے اس لیے تیمم میں سر پر مٹی ملنے کا حکم نہیں دیا گیا اور پاؤں پر مٹی ملنے کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ پاؤں تو اکثر اوقات خاک آلودہ رہتے ہیں اس لئے اس پر بھی مٹی ملنے کا حکم نہیں اور چہرہ کو خاک آلودہ کرنے اور اس پر مسح کرنے میں اللہ رب العزت کی تعظیم اور اس کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار ہے ۔

۲: دوسری وجہ یہ ہے کہ تیمم کا حکم آعضاء مغسولہ ہاتھ اور چہرہ کے لئے ہے اوراعضاء ممسوحہ ( سر اور پاؤں پر تو ویسے بھی مسح کیا جاتا ہے ہے اور پاؤں پر مسح موزے پہننے کی حالت میں کیا جاتا ہے)

لہذا جب اعضاء مغسولہ میں مسح کے حکم کے ذریعے تخفیف کی گئی تو اعضاء ممسوحہ میں تخفیف ساقط کر دینے ہی سے حاصل ہوگی ( کہ ایسے بالکلیہ ساقط کر دیا جائے گا ) اس لئے کہ اگر وہاں بھی مٹی سے مسح کرنے کا حکم دیا جائے تو اس میں تخفیف نہ ہوگی .”شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان” اپنی کتاب میں لکھتے ہیں یعنی احکام شرعیہ میں اللہ رب العزت کی سنت یہ ہے کہ وہ کام جو بندوں کی استطاعت میں نہ ہو ان میں تخفیف و اسانی کی جائے( چنانچہ قرآن کریم میں ہے اللہ تعالی کسی بھی انسان کو اس کام کا مکلف ٹھہراتے ہیں جو اس کی طاقت و وسعت میں ہو) پھر آسانی کی مختلف صورتوں میں سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ جس چیز کے کرنے میں حرج لازم آئے اسے ساقط کر کے اس کا بدل تجویز کر لیا جائے اس لیے کہ اگر بغیر بدل کے اسے بالکل ساقط کر دیا جائے تو پھر ایک تو ان کے دل مطمئن نہ ہوں گے اور جس کا وہ غایت درجہ التزام و اہتمام کرتے تھے اسے بالکلہ ترک کر دینے کی وجہ سے مختلف وساوس ان کے دل میں آئیں گے اور دوسرا جس کا وہ التزام کرتے تھے یعنی (وضو غسل وغیرہ) اس کو ترک کرنے کے عادی نہ ہو جائے کہ پھر عام حالات میں بھی ان کی وہ اہمیت باقی نہ رہے چنانچہ اسی حکمت کے پیش نظر بارگاہِ عالی میں وضو و غسل کی جگہ تیمم  کا حکم صادر کیا گیا اسے تیمم کو ایک وجود تشبیہی حاصل ہوگی کہ یہ بھی منجملہ طہارت میں سے ایک طہارت ہے اور تیمم کا یہ فیصلہ و قضاء ان امور عظیمہ میں سے ایک ہے جن کے ذریعے امت محمدیہ کو دوسری امتوں پر فوقیت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک کردینے والی قرار دے دی گی

“تیمم میں چہرے اور ہاتھوں کی تخصیص کی وجہ”

تیمم کا دو اجزاء کے ساتھ خاص ہونا دو وجوہ سے قیاس و حکمت کے عین موافق ہے۔

۱: ایک تو یہ کہ مٹی کا سر پر ڈالنا عام لوگوں کی عادات میں سے ایک نا پسندیدہ عمل ہے کہ ایسا تو مصائب و تکالیف کے وقت کیا جاتا ہے اس لیے تیمم میں سر پر مٹی ملنے کا حکم نہیں دیا گیا پاؤں پر مٹی ملنے کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ اکثر اوقات پاؤں خاک آلودہ رہتے ہیں اس لئے اس پر بھی مٹی ملنے کی ضرورت نہیں

اور چہرے کو خاک آلودہ کرنے میں اللہ رب العزت کی تعظیم اور اس کے سامنے عاجزی وہ انکساری کا اظہار ہے جو محبوب ترین عبادات میں سے ہیں بندہ کے حق میں بہت زیادہ مفید یہی وجہ ہے کہ سجدہ کرنے والے کے لئے اپنے چہرے کو مٹی سے نہ  بچائے مستحب اور ناپسندیدہ ٹہرایا گیا ہے جیسا کہ بعض صحابہ نے ان لوگوں سے جنہوں نے سجدہ کے دوران اپنے چہرے کو مٹی سے بچانے کے لئے سامنے کوئی چیز رکھدی کہا کہ “اپنے چہرے کو خاک آلودہ ہونے دو” اور یہ علت چونکہ پاؤں کے مسح میں نہیں پائی جاتی اس لئے اس کا حکم نہیں دیا گیا

۲: دوسری وجہ یہ ہے کہ تیمم کا حکم اعضاء مغسولہ( ہاتھ اور چہرہ) کیلئے ہےاور  اعضاء ممسوحہ( سر اور پاؤں کے سر پر تو ویسے بھی مسح کیا جاتا ہے اور پاؤں پر مسح موزے کی حالت میں کیا جاتا ہے) سے یہ حکم ساقط ہو جاتا ہے.لہذا جب اعضاء مغسولہ میں مسح کے حکم کے ذریعے تخفیف کی گئی تو اعضاء ممسوحہ میں تخفیف ساقط کر دینے کیسے حاصل ہوگی کہ اسے بالکل ساقط کردیا جائے اس لیے اگر وہاں بھی مٹی سے مسح کرنے کا حکم دیا جائے تو اس میں تخفیف نہ ہوگی بلکہ ایک قسم کے مسح سے دوسرے قسم کے مسح کی طرف انتقال ہوگا یعنی (پہلے پانی سے مسح کا حکم اور اب مٹی سے) اس وجہ سے سر اور پاؤں کے مسح کا حکم شریعت نے نہیں دیا.

تیمم کا سبب :

        امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ کے حوالے سے تیمم کی فرضیت کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ اس غزوہ( مریسیع) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ہار کھو گیا  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے تلاش کرنے کے لئے ٹہر گئے اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا قریب میں پانی بھی موجود نہیں تھا تو اللہ تعالی نے تیمم کا حکم نازل فرمایا.[1]

” صحیح البخاری میں جابررضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

” عن جابر بن عبد الله ان النبي صلى الله عليه وسلم قال اعطيت خمسا لم يعطھن احد قبلي نصرت بالرعب ميسیره شهر وجعلت لی الارض مسجدا و طھورا فایما رجل من امتي ادركته الصلاة فليصل واحلت لي المغانم ولم تحل لاحد قبلي واعطيت الشفاعه وكان النبي يبعث الى قومه خاصه ويبعث الى الناس عامة.

  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئ تھی ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور تمام  زمین میرے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق  بنائی گی. پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت نماز ادا کر لینی چاہیے اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا مجھے شفاعت عطا کی گئی اور تمام انبیاء اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوئے تھے لیکن میں تمام انسانوں کیلئے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں [2]

واللہ اعلم بالصواب

[1]: کشف الباری کتاب تیمم مکتبہ فاروقیہ ص ۳۲ /۴۲/۴۵/۴۶

[2] : صحیح البخاری  ج ۱ ص/ ۱۲۴. مکتبه لدھیانوی

اپنا تبصرہ لکھیں