سوال : بلیک مارکیٹنگ  کا  کاروبار  شرعا  کیسا ہے ؟ صورتیں  مثالوں کے ساتھ  تحریر کریں؟

سوال : بلیک مارکیٹنگ  کا  کاروبار  شرعا  کیسا ہے ؟ صورتیں  مثالوں کے ساتھ  تحریر کریں؟

الجواب وباللہ التوفیق

چونکہ  اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو عزت سے نوازا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَلَـقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِىۡۤ اٰدَمَ وَحَمَلۡنٰهُمۡ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ وَرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلۡنٰهُمۡ عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِيۡلًا[1]

ترجمہ:یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔

مسلمان کے لئے عزت نفس سب سے مقدم چیز ہے لہٰذا ہر وہ کام سے پرہیز کرنا چاہئے  جس میں ذلت نفس کا اندیشہ ہو۔

سنن ابن ماجہ میں حضرت حُذیفہ ﷛ کے روایت پر حدیث نقل ہے۔

عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ» ، قَالُوا : وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ : «يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُهُ»[2]

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کے لیے مناسب نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اپنے آپ کو کیسے ذلیل کر سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا :’’ ایسی آزمائش میں نہ پڑے جس میں پورا اترنے کی طاقت نہیں ۔‘‘

بلیک مارکیٹنگ کاروبار اس کاروبار کو کہا جاتا ہے جس کاروبار پر حکومت نے کسی خاص مصلحت کی بنیاد پر پابندی لگائی ہو۔ اسمگلنگ کے معاملہ کی حقیقت یہی ہے کہ باہر ممالک سے مال لیکر آنا یا باہر ممالک مال لے کر جانا حلال مال میں سے ہوشرعی اعتبار سے جائز ہے لیکن چونکہ حُکومت نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے  اس پابندی کے خلاف ورزی میں بہت سے گناہوں کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے اس وجہ سے اس قسم کے کاروبار سے بچنا چاہئے

مثلا خلاف قانون مال بیچنے سے حکومت کی طرف سےذلت نفس کا اندیشہ ہوتا ہے  اور عزت نفس سب سے مقدم چیز ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اس میں حکومت کے خلاف ورزی آتی ہے اور اللہ تعالیٰ  نے اولی الامر کی اطاعت  پر امر کیا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ “یا یُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِمِنۡکُم” [3]

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں”
تیسری بات  اس میں یہ ہے کہ اس میں اپنی جان  ،مال یا عزت و ابروکو خطرے میں  ڈالنا پڑتا ہے جس کی حفاظت کا شریعت میں بڑا خیال رکھا گیا ہے  اور بسا اوقات  تکلیف  اور قید و بند کی صعوبت برداشت کرنی پڑتی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد  ہے

وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ وَاَحۡسِنُوۡا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۔[4]

اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیا ر کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔

اس طرح  اسمگلنگ  میں رشوت دینے کی نوبت بھی آتی ہے اور قرآن کریم کا ارشاد ہے: وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‌ ؕ

حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔

خلاصہ یہ ہوا کہ  حکومت کے قانون کی پابندی کرنی چاہیے اور ایسے کاروبار سے اجتناب کرنا  چاہیے۔

واللہ اعلم بالصواب

[1]  : الإسراء -70

[2]  : سنن ابن ماجہ، باب فتنوں سے متعلق احکام و مسائل، حدیث -4016

[3] :  سورۃ النساء- 59

[4] : بقرہ -195

اپنا تبصرہ لکھیں