سوال: ایک خاتون معلّمہ قرآن ہے۔وہ باقاعدہ تعلیم قرآن دیتی ہے۔ تو مخصوص ایّام میں تعلیم کو کیسی جاری رکھ سکتی ہے؟ اور اگر نہ رکھیں تو طلباء یا طالبات کا وقت ضائع ہوگا اس کا حکم کیا ہوگا؟

سوال: ایک خاتون معلّمہ قرآن ہے۔وہ باقاعدہ تعلیم قرآن دیتی ہے۔ تو مخصوص ایّام میں تعلیم کو کیسی جاری رکھ سکتی ہے؟ اور اگر نہ رکھیں تو طلباء یا طالبات کا وقت ضائع ہوگا اس کا حکم کیا ہوگا؟

الجواب وباللہ التوفیق

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ لہذا ایک عظیم رتبہ اور حیثیت کا مالک ہے اور اللہ تعالی کے دین کا ایک شعیرہ ہے۔ لہذا قرآن کے ساتھ کامل ادب اور احترام سے پیش آنا چاہیے۔ جہاں تک سوال میں مذکورہ مسئلہ کا حکم ہے۔ تو اگر مخصوص ایام میں یہ معلّمہ کسی دوسری معلّمہ کا آسانی سے بندوبست کر سکتی ہے تو اچھا ہے۔بصورت دیگر یہ معلمہ مخصوص ایام میں بھی اپنا سلسلہ درس جاری رکھ سکتی ہے یعنی اس کا جواز ہے۔ کیونکہ تعلیم قرآن بہت اہمیت کا حامل ہے اور حالت حیض میں قراءت قرآن اور تعلیم قرآن سے ممانعت کا کوئی دلیل موجود نہیں۔ جو احادیث اس بارے مختلف محدثین نے نقل کی ہے، تقریبا سب کے سب متکلّم فیہ ہے۔[1]

لہذا ضعیف روایات اور آثار سے اس حکم کا استنباط کرنا خطا ہے۔ احناف علماء نے بھی ایک ایک کلمہ پڑھانے کی اجازت دی ہے اور امام طحاوی رحمہ اللہ المتوفیٰ 321ھ  نے توآدھی آدھی آیات پڑھنے کی بھی جواز بیان کی ہے۔ چنانچہ “فتح القدیر” میں ہے:

اذا حاضت المعلمة تعلّم کلمة کلمة و تقطع بین الکلمتین ، وعلیٰ قول الطحاوی نصف آية، وفی الخلاصة فی عدّ حرمات الحیض و حرمة القرآن ،الاّ اذا کانت آية قصیرة تجری علی اللسان عند الکلام۔[2]

( یہا ں صاحب “فتح القدیر”نے  ان روایات پر کلام بھی ذکر کیا ہے،جس میں حائضہ کے لیے قراءت قرآن سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔)تو جب احناف نے ایک ایک کلمہ یا نصف نصف آیت پڑھنے پڑھانے کی اجازت دے دی ہے، (تو بس یہی تعلیم کی اجازت ہے) تو یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے نزدیک بھی حائضہ کے لئے تعلیمِ قرآن سے ممانعت کی کوئی صریح صحیح دلیل موجود نہیں، ورنہ یہ علماء اس کا بالکل جواز نہیں دیتے۔باقی مالکیہ تو مطلقاً حائضہ کے لیے قراءت قرآن سمجھتے ہیں۔ لہٰذا تعلیم و قراءت القرآن حائضہ کے لئےجائز ہے لیکن مس المصحف (قرآن کو ہاتھ لگانا) سے احتراز کرے گا۔ کیونکہ اس بارےمیں حدیث ہے:

أن في الكتاب الذي كتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمرو بن حزم : أن لا يمس القرآن إلا طاهر .[3]

اور  لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ

 سے بھی غیر صریحی طور پر ثابت ہوتی ہے۔( کیونکہ اس کا مقصود اصلی /مصداق اصلی وہ ملائک ہیں، جن کے بغیر لوح محفوظ کو کسی کی رسائی نہیں۔) البتہ اگر دستانوں کا استعمال کریں تو پھر جائز ہے۔

پس خلاصہ یہ ہوا کہ، حائضہ کے لئے “مس المصحف” (قرآن کو ہاتھ لگانے) کے بغیر قراءت وتعلیم قرآن جائز ہے۔ جمہور علماء اگرچہ حائضہ کیلئے (مطلقاً) قراءت وتعلیم قرآن کا جواز نہیں دیتے،لیکن ان کے پاس اس بات پر کوئی صحیح دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

[1]: المحلّیٰ لابن حزم (ج1 ص78،79) ، البنایۃ شرح الھدایۃ (ج1 ص643) ، ضعیف سنن الترمذی للالبانی (ص12)

:2 فتح القدیر (ج1 ص171،172)

1: مؤطا الامام مالک (ص185) ط: المیزان

اپنا تبصرہ لکھیں