سوال :امتحانات میں بددیانتی یعنی نقل کرنا شرعا کیسا ہے جبکہ بعض اساتذہ اور تنظمیں نقل دینے میں تعاون کرتے ہیں ؟
الجواب وباللہ التوفیق
امتحانات میں بددیانتی یعنی نقل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔مولانا گوہر رحمان ؒ اپنی کتاب تفہیم المسائل میں میں لکھتے ہیں کہ نقل کرنا جائز نہیں ہے اس وجہ سے کہ نااہل اہل بن جاتا ہے اور اہل نااہل بن جاتا ہے فاسد معاشرے میں دیانت وامانت پر قائم رہنا بہت بڑا مجاہدہ ہے یہ ایک قسم کی بددیانتی ہے اگر بددیانتی اور دھاندلی کے سیلاب میں تنظیم اساتذہ اور دوسری دینی تنظیموں کے لوگ بھی بہہ جائیں تو حق کی شہادت کون کرے گا اور دیانت وامانت کا نمونہ کون پیش کرے گا امتحان دیتے وقت دوسروں کا لکھا ہوا جواب نام سے پیش کرنا یعنی نقل کرنا اور کرانا جھوٹ بھی ہے اور خیانت بھی ہے۔[1]
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒاپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اگر بورڈ یا محکمے یا کالج کی طرف سے نقل پر کوئی پابندی نہیں ہو تو پھر جائز ہے ورنہ اساتذہ کی چشم پوشی کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔[2]
نقل کرنا ایک قسم کی خیانت اور دھوکہ ہے حدیث مبارکہ ہے
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا» ۔[3]
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔اس حدیث میں بھی دھوکہ سے منع کیا گیا ہے نقل کرنا حکومت کے ساتھ بھی خیانت ہے۔
قال اللہ تعالی:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞ ۔[4]
اے ایمان لانے والو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو
واللہ اعلم بالصواب
[1] : تفہیم المسائل ج/6 ص/423 مکتبہ تفہیم القرآن مردان
[2] : آپ کے مسائل اور انکا حل ج/7 ص/300 مکتبہ لدھیانوی
[3] : صحیح المسلم کتاب الایمان ج/1 ص/95 رقم الحديث/283 مکتبہ رحمانیہ
[4] : سورہ الانفال آیت نمبر/27