سوال : ائیر گن جو مروجہ بندوق ہے اس کاشکار حلال ہے یا حرام اگر حرام ہے تو کس صورت میں حلال ہوگا یعنی کوئی ایسی صورت ہے کہ اس صورت میں اس قسم بندوق کاشکار حلال ہوگا؟

سوال   : ائیر گن جو مروجہ بندوق ہے اس کاشکار حلال ہے یا حرام اگر حرام ہے تو کس صورت میں حلال ہوگا یعنی کوئی ایسی صورت ہے کہ اس صورت میں اس قسم بندوق کاشکار حلال ہوگا؟

الجواب وباللہ التوفیق

بندوق سے کیا گیا شکار صرف اس صورت میں حلال ہوگاجب شکاری اسے خود ذبح کر یعنی شکاری اپنے شکار کو زندہ پائے اور مرنے سے پہلے خود ذبح کریں تو اس صورت میں حلال ہوگا اور اگر شکاری نے مروجہ بندوق پر شکار کیا اور اس کو مردہ پایا تو اس صورت میں حلال نہیں اگر چہ ان سے خون بھی نکلا ،کیونکہ گولی درحقیقت دھار اور نوک سے ذبح نہیں کرتی ،بلکہ اپنی قوت مدافعت کے ذریعے توڑتی اور کوٹتی چلی جاتی ہے، اور جو خون گولی کی وجہ سے نکلا ہے وہ چوٹ کا ہوتا ہے کاٹ کا نہیں ، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت ہیں کہ ” عَنْ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ ؟ فَقَالَ : إِذَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ فَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ ، فَلَا تَأْكُلْ ، فَقُلْتُ : أُرْسِلُ كَلْبِي ، قَالَ : إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّيْتَ فَكُلْ ، قُلْتُ : فَإِنْ أَكَلَ ؟ قَالَ : فَلَا تَأْكُلْ ، فَإِنَّهُ لَمْ يُمْسِكْ عَلَيْكَ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ ، قُلْتُ : أُرْسِلُ كَلْبِي فَأَجِدُ مَعَهُ كَلْبًا آخَرَ ، قَالَ : لَا تَأْكُلْ ، فَإِنَّكَ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى آخَرَ “[1]

ترجمہ : حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پر کے تیر یا لکڑی گز سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر اس کی عرض کی طرف سے شکار کو لگے اور اس سے وہ مر جائے تو وہ موقوذة‏  ( مردار )  ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی  ( شکار کے لیے )  دوڑاتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھ کر شکار کے پیچھے دوڑاؤ تو وہ شکار کھا سکتے ہو۔ میں نے پوچھا اور اگر وہ کتا شکار میں سے کھا لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر نہ کھاؤ کیونکہ وہ شکار اس نے تمہارے لیے نہیں پکڑا تھا، صرف اپنے لیے پکڑا تھا۔ میں نے پوچھا میں بعض وقت اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور بعد میں اس کے ساتھ دوسرا کتا بھی پاتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر  ( اس کا شکار )  نہ کھاؤ کیونکہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں پڑھی ہے۔

مصنف ابن ابی شبیہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے لکھا گیا ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بندوق سے کیا گیا شکار نہیں کھاتے ،”عن ابن عمر انہ کان لا یاکل ما اصابت البندقة والحجر “[2]

فتاوی شامی میں ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ” لایحل صید بندقة والحجر والمعراض وما اشبہ ذالک وان جرح[3]

صاحب الہدایہ لکھتے ہیں کہ “ولا یوکل ما اصابہ البندقة فمات بھا لانھا تدق وتکسر ولا تجرح فصار کالمعراض[4]

تبیین الحقائق میں علامہ فخرالدین الزیلعی لکھتے ہیں کہ ” لانھا تدق وتکسر ولا تجرح فصار کالمعراض”[5]

فتاوی تاتارخانیہ میں لکھا گیا ہےکہ” قال محمد رحمہ فی الاصل ولا یحل صید البندقة والحجر والمعراض والعصاء وما اشبھھا وان جرح لانہ لا یخرق الا ان یکون شئیا من ذالک قد حددہ وطولہ کالسھم وامکن ان یرمی بہ فان کان ذالک واخرقہ بحدہ حل [6]

 لیکن اس مسئلے  کے بارے میں سید ابو الاعلی المودودیؒ کی رائی الگ ہے  مولانا بندوق کے شکار کے حلت کے قائل ہے اور خود رسائل ومسا ئل میں لکھتے ہیں کہ میں نے بندوق کے شکار کے حلال ہونے کا مسئلہ  جو بیان کیا ہے  میں نے براہ راست قرآن اور سنت سے آخذ کیا ہے    [7]

اور اس مسئلے میں جو نصوص قرآن وسنت سے ہے اکثر مولاناؒ نے ذکر کیا ہے اور اخر  میں مولاناؒ نے ایک عجیب  بات کیا ہے مولانا لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا نصوص ( یعنی رسائل ومسائل میں ذکر شدہ نصوص ) کو سامنے رکھنے کے بعد بندوق ے مسئلے پر غور کیجئے ۔ بندوق کی گولی کو غلیل کے ٹھنڈے سے غللے پر قیاس کرنا اور اس کی بنا پر یہ سمجھنا کہ اس سے جو جانور مرتا ہے، وہ دراصل اسی طرح کی چوٹ کھا کر مرتا ہے جیسی پتھر یا لکڑی کے عرض سے لگتی ہے صحیح  نہیں ہے ۔ گولی جس قوت سے بندوق سے نکلتی ہے اور پھر جس تیز رفتار کے ساتھ وہ بندوق سے نشانے تک ( تقریبا 500 گز فی سیکنڈ ) راستہ طے کرتی ہے، اس کی بنا پر وہ کوئی ٹھنڈا سنگ ریزہ نہیں رہتی، بلکہ اچھی خاصی نرم اور تقریبا نوک دار ہو کر جسم کو چھیدتی ہوئی اس میں گھستی ہے اور پھر اس سے خون بہ کر جانور مرتا ہے۔ یہ عمل شکاری جانور کے ناخنوں اور کچلیوں اور معراض یا لکڑی کی میخ کا سرا چبھنے سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتا، بلکہ خون بہانے میں بعید نہیں کہ ان سے زیادہ وہی کارگر ہو  ان وجوہ سے میری راے میں اگر خدا کا نام لے کر بندوق چلائی جائے اور اس کی گولی یا چھرے سے جانور مر جائے تو اس کے حلال نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا اس پر اطمینان نہ ہو اور وہ اس کو حرام ہی سمجھتا ہوتو مجھے اس پر بھی ا  صرار نہیں ہے کہ وہ ضرور اسے حلال مانے اور واجب ہے کہ اسے کھائے ۔ میرا اجتہاد میرے لیے قابل عمل ہے اور دوسروں کا جتہاد یا کسی مجتہد کا اتباع ان کے لیے۔ اس اجتہادی اختلاف سے اگر چہ میرے اور ان کے درمیان حرام و حلال کا اختلاف  ہوجاتا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں فریق ایک ہی دین میں رہتے ہیں، الگ الگ دینوں کے پیرو نہیں ہو جاتے [8]

واللہ اعلم بالصواب

 

[1]  : صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید باب الصید المعراض ج 2 ص 823  حدیث نمبر 5476 الناشر بشریٰ

[2]  : مصنف ابن ابی شبیہ ج 10 ص 408 رقم 20087 ط علوم القرآن بیروت

[3] : فتاوی شامی  کتاب الصید ج 6 ص 471 ط کراچی

[4] : فتاوی شامی  کتاب الصید ج 6 ص 471 ط کراچی

[5] : تبیین الحقائق ج 6 ص 59 ط امدادیہ ملتان

[6] : فتاوی تاتارخانیہ ج 18 ص 475 کتاب الصید ط عزیزیہ چمن

[7]: رسائل مسائل ص 768 الناشر پبلی کیشز لمٹڈ

 1: رسائل ومسائل ص 770 771 الناشر اسلامک پبلی کیشزلمٹڈ

اپنا تبصرہ لکھیں