سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام شرع متین اس مسئلے بارے میں کہ نکاح سے حاصل ہونے والے فوائد کیا ہیں؟
الجواب بعون الملک الوھاب
نکاح سے حاصل ہونے والے بہت ساری فوائد ہیں جن میں سے چند فوائد مندرجہ ذیل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [1]
ترجمہ: اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے تمہارے واسطے تم ہی میں سے جوڑا پیدا فرمایا ہے تاکہ تم اس کے پاس جا کر سکون حاصل کر سکو اور اللہ تعالی نے تمہارے درمیان پیار محبت اور مہربانی کا ذریعہ بنایا۔
نكاح فخررسول اللہﷺ:
عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ،قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَجَمَالٍ، وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ، أَفَأَتَزَوَّجُهَا؟ قَالَ: لَا، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ، فَنَهَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ:تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ, فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ.[2]
سیدنا معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا مجھے ایک عورت ملی ہے جو عمدہ حسب اور حسن و جمال والی ہے مگر اس کے اولاد نہیں ہوتی ۔ تو کیا میں اس سے شادی کر لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں “ پھر وہ دوبارہ آیا ، تو آپ ﷺ نے منع فر دیا ۔ پھر وہ تیسری بار آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں ۔ بلاشبہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کرنے والا ہوں ۔
آنکھوں کا جھک جانا اور شرمگاہ کا محفوظ ہونا :
نکاح کی وجہ سے انسان کی آنکھوں اورشرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔
بخاری میں حدیث ہے:
عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ[3]
علقمۃرضی اللہ عنہ سے روایت ہےایک بار میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل رہا تھاعبداللہ ؓ نے کہا کہ ایک بار ہم ﷺکے ساتھ تھے تو آپ ﷺنے فرمایااگر کوئی صاحب استطاعت ہوتو اسے نکاح کر لینا چاہےکیونکہ نظر کو نیچے رکھنا اور شرمگاہ کو بد فعلی سے محفوظ رکھنے کا یہی ذریعہ ہے۔ اور جو تم میں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسےروزے رکھنے چاہئیں کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔
صدقہ جاریہ :
نکاح کی وجہ سےاللہ تعالیٰ والدین کے لیے اولاد صدقہ جاریہ بنادیتے ہیں۔
مسلم شریف میں حدیث ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ،أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ،أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ[4]
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے رسول الله ﷺنے فرمایا جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ۔ ایک صدقہ جاریہ کا ۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو اس کے لئے دعا کرے۔
اللہ کا خصوصی مدد شامل حال:
رسول اللہ ﷺکی حدیث مبارک ہے آپ ﷺفرماتے ہیں تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمہ حق ہےان میں سے ایک نکاح کرنے والا ہے ۔
سنن نسائی میں حدیث ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَوْنُهُ الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ[5]
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی مد کرنا اللہ تعالیٰ پر ضروری ہے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا‘ وہ نکاح کرنے والا جو گناہ سے بچنا چاہتا ہے اور وہ غلام جو اپنے مالک سے آزادی کا معاہدہ کررکھا ہے اور اس کی نیت معاہدہ پورا کرنے کی ہے۔
بیٹیوں کی پرورش پر ثواب:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوْ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ[6]
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دولڑکیاں، یادوبہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔
جب انسان مر جاتا ہےتو اس کے نیک اعمال اور عبادات کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے لیکن دو عبادتیں ایسی ہیں جن کا سلسلہ دنیا سے جنت تک باقی رہتا ہےایک ایمان اور دوسرا نکاح کہ جس طرح دنیا میں نکاح کے ذریعہ سے ازدواجی زندگی کا سلسلہ رہتا ہے اسی طرح جنت میں بھی میاں بیوی کی رفاقت کی زندگی کا سلسلہ رہے گا۔
اشتغال بالنکاح تخلي بالعبادات سے افضل ہے یعنی ترقی دنیا اختیار کرکے تنہائی کی عبادت کے مقابلہ میں نکاح کرکے اجتماعی اور شہری زندگی گزارنا زیادہ افضل ہے، نکاح کے ذریعہ بدنگاہی اور بری نظر سے حفاظت ہو جاتی ہے۔،نکاح کے ذریعے شرمگاہ کی حفاظت اور حرام کاری سے بچ کر پاکدامنی کی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
واللہ اعلم باالصواب
[1]:سوره الروم:21
[2] :سنن ابی داؤد از كتاب النكاح،باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء، ج ١ ص ٢٩٦ مكتبه لدهيانوى
[3]: صحیح البخاری ج ۲ ص ۲۹۴ مکتبہ لدھیانوی
[4]:صحیح المسلم از کتاب الوصیة ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته ج ٢ ص ٥١ مكتبه رحمانيه
[5]:سنن ا لنسائى از کتاب الجھاد،باب فضل الروحۃ فی سبیل اللہ زوجل،ج:2،ص:780 مکتبہ البشریٰ
[6]:جامع الترمذی باب ماجاء فی النفقة على البنات ج 2 ص 537 مکتبہ لدھیانوی