سوال:سلام مسنون کے بعد جناب مفتی صاحب مجھے ایک سوال پوچھنا تھا وہ سوال یہ ہے کہ انسان کو راہ نجات پانے کےلئے کونسا عقیدہ رکھنا چا ہئے کہ اس کی بنیاد پر وہ جنت جانے کا مستحق بن جائے وضاحت کیجئے شکریہ؟

راہ نجات پانے کےلئےکونسا عقیدہ رکھناچاہئے

سوال:سلام مسنون کے بعد جناب مفتی صاحب مجھے ایک سوال پوچھنا تھا وہ سوال یہ ہے کہ  انسان کو راہ نجات پانے کےلئے کونسا عقیدہ  رکھنا چا ہئے کہ اس کی           بنیاد  پر وہ جنت جانے کا  مستحق بن جائے وضاحت کیجئے شکریہ؟

الجواب بتوفیق اللہ عزوجل

اللہ تعالٰی   نے انسانوں کے لئے دو جہان بنائے ہیں ایک دنیا اور دوسری آخرت  دنیاوی زندگی قلیل اور عارضی ہےاور اخروی زندگی بہتر اور ابدی ہےاس لئے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔

والاٰخرۃ خیر وابقٰی[1]

حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ اس آیت کےذیل میں امام سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ لکھتے ہیں :

 یعنی آخرت دو حیثیتوں سے دنیا کے مقابلے میں قابل ترجیح ہے۔ ایک یہ کہ اس کی راحتیں اور لذتیں دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں اور دوسرے یہ کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی ۔[2]

تو  انسان کے لئے  آخرت میں کامیابی اور  اخرت میں جنت جانے کے لئے  کونسا  عقیدہ اور    عمل رکھنا چاہئے کہ وہ جنت  میں جائے ۔ تو قرآن اور حدیث میں غور اور فکر کر نے کے بعد علماء نے اس کا میابی کا انحصار دو چیزوں پر رکھا ہے۔

 (1) صحیح عقیدہ  (2)اعما ل صالحہ

اعمال صالحہ کی اہمیت  اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اولیت اور فوقیت جس کو حاصل ہےوہ ہےایمان  اور صحیح عقیدہ۔اس لئے اللہ تعا لٰی نے جب دونوں کا تذ            کرہ کیا ہے تو   عام طور پر  ایمانیات اور عقائد کو  اعمال صالحہ پر مقدم کیا ہے۔جس طرح اللہ تعالٰی نے  بار بار قران کریم میں ارشاد  فرمایا ہے۔

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ ‌‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ [3]

 اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے

یعنی وہ لوگ جنہوں نے پہلے ایمان لایا  یعنی اپنے عقیدے کی اصلاح کی اور پھر اعمال صالحہ کئے وہ جنت میں جا ئیں گے۔اور اسی طرح نبی ﷺ نے تیرہ سالہ مکی زندگی میں  لوگوں کو عقیدے کی اصلاح  کی طرف دعوت دی تاکہ وہ اپنے عقیدے درست کرے اعمال صالحہ کا سلسلہ تو بعد میں شروع ہوا۔جیسے نماز زکوٰۃ جہاد وغیرہ کی فرضیت  تو بہت بعد میں ہوئی۔

صحیح عقیدے کی اہمیت اس  سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ  نبی ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب  کو آخری وقت نزع کی حالت میں  ان سےکہا کہ اے چچا ایمان لا ؤیعنی لا الہ الا اللہ پڑھو یہ نہیں کہا تھا کہ  نماز پڑھو ۔اور اسی طرح    جنت اور جہنم کا دار مدار بھی ایمانیات اورصحیح عقیدے پر ہے یعنی اعمال کے خرابی کے وجہ سے شائد بندہ جہنم سے بچ جائے لیکن اگر عقیدہ خراب ہو تو جہنم میں ضرور جائیگا۔تو لھٰذا اپنے ایمان اور عقیدے کے اصلاح  کے بارے میں سوچ اور زیادہ ہونا چاہئےاس لئے کہ دنیا میں  ہمارا جو مقصود اصلی   ہے جنت  کا حصول اسی پر موقوف ہے۔

                                                                              واللہ اعلم بالصواب

امہات العقائد میں  سب سے افضل عقیدہ

سوال:جناب مفتی صاحب  السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ  امہات العقائد میں  سب سے افضل اور مہتم با لشان  عقیدہ عقیدہ  توحید ہے اس پر کچھ دلائل چاہیے    ؟

              اسلام کےپورے اعتقادی اور عملی نظام میں پہلی اور بنیادی چیز ایمان باللہ ہے۔ باقی جتنے  بھی   اعتقادات وایمانیات ہیں۔ سب اسی ایک اصل کی فرع ہے اور جتنے اخلاقی احکام اور تمدنی قوانین ہیں۔ سب اسی ذات سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہیں اس کا مصدر اور مرجع خدا کی ذات ہے۔ فرشتوں پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کے برگزیدہ  مخلوق  ہیں اور اللہ تعالی نے ہمیں ان پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ کتابوں پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کی نازل کی ہوئی ہیں۔ رسولوں پر ایمان اس لیے ہے کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یوم آخرت پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کے انصاف کا دن ہے۔ فرائض اس لیے فرائض ہیں کہ خدا نے ان کو مقرر کیا ہے۔ حقوق اس لیے حقوق ہیں کہ وہ خدا کے حکم پر مبنی ہیں۔ اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب اس لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کی جانب سے ہیں۔ غرض ہر چیز جو اسلام میں ہے، خواہ وہ عقیدہ ہو یا عمل، اس کی بنیاد صرف ایمان باللہ پر قائم ہے۔ اس ایک چیز کو الگ کر دیجئے، پھر نہ ملائکہ کوئی چیز ہیں نہ یوم آخرت ، نہ رسول اتباع کے مستحق ٹہرتےہیں، نہ ان کی لائی ہوئی کتا بیں، نہ فرائض و طاعات میں کوئی معنویت باقی رہ جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے وحدانیت کا تذکرہ درج ذیل آیات میں ہے:

(1) ﴿ءَأَربابٌ مُتَفَرِّقونَ خَيرٌ أَمِ اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّارُ  ”[4]

’’بھلا کئی جدا جدا رب اچھے یا یکتا و بڑا غالب اللہ؟‘‘

(2) ﴿ قُلِ اللَّهُ خـٰلِقُ كُلِّ شَىءٍ وَهُوَ الو‌ٰحِدُ القَهّـٰرُ ”[5]

کہو،ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے،سب پر غالب۔‘‘

(3) ﴿وَبَرَزوا لِلَّهِ الو‌ٰحِدِ القَهّارِ [6]

’’اورسب کے سب اللہ واحدقہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہوجائیں گے۔‘‘

(4) ﴿ وَما مِن إِلـٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّار”ُ[7]

’’کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ،جویکتاہے،سب پر غالب۔‘‘

(5) ﴿ هُوَ اللَّهُ الو‌ٰحِدُ القَهّارُ .[8]

’’وہ اللہ ہے اکیلااور سب پرغالب۔‘‘

(6)﴿لِمَنِ المُلكُ اليَومَ لِلَّهِ الو‌ٰاحِدِ القَهّارِ ” [9]

’’آج بادشاہی کس کی ہے؟(سارا عالم پکار اٹھےگا)اللہ واحد قہارکی ۔‘‘

بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کے ” اله واحد” ہونے کا تذکرہ ملتا ہے، چند آیات ملاحظہ کریں:

وَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰاحِدٌ” [10]

 إِنَّمَا اللَّهُ إِلـٰهٌ وا‌ٰحِدٌ”  [11]

وَما مِن إِلـٰهٍ إِلّا إِلـٰهٌ وا‌ٰحِدٌ”  [12]

إِنَّما هُوَ إِلـٰهٌ و‌ٰاحِدٌ ” [13]

أَنَّما إِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰاحِدٌ”  [14]

فَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ و‌ٰاحِدٌ”  [15]

إِنَّ إِلـٰهَكُم لَوا‌ٰحِدٌ ” [16]

﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا و‌ٰاحِدًا ” [17]

کفار و مشرکین توحید الہٰی سے بدکتے تھے، جبکہ انبیاء و رسل علیہم السلام لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے تھے اور اپنے ماننے والوں کو بھی توحید کا پرچار کرنے کی تلقین کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا ذَكَرتَ رَبَّكَ فِى القُرءانِ وَحدَهُ وَلَّوا عَلىٰ أَدبـٰرِهِم نُفورًا ” [18]

’’اور جب تم قرآن میں اپنے رب یکتا کا ذکر کرتے ہو تو وہ بدک جاتے ہیں اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔‘‘

﴿وَإِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَحدَهُ اشمَأَزَّت قُلوبُ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِالءاخِرَةِ [19]

’’اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کاذکرتے ہوتووہ نفرت سے منہ موڑلیتے ہیں۔‘‘

﴿ذ‌ٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذا دُعِىَ اللَّهُ وَحدَهُ كَفَرتُم [20]

’’یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو،اس وجہ سے ہے کہ جب اکیلےاللہ کی طرف بلایاجاتاتھاتوتم انکار کر دیتےتھے ۔‘‘

سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں نے کہا تھا:

﴿وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَد‌ٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ[21]

’’اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔‘‘مذکورہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی احادیث میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرتے تھے۔ لا الہ الا اللہ توحید ہی تو ہے جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو پیش کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

يا أيها الناس قولوا لا إله إلاّ الله تفلحوان’’لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو، تم فلاح پا جاؤ گے۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مناسک حج ادا کرتے ہوئے کوہ صفا پر چڑھے حتی کہ بیت اللہ نظر آنے لگا فكبر الله و واحده

’’تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور اللہ کی توحید بیان کی۔‘‘

آپ نے یہ کلمات پڑھے:

“لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيى و يميت وهو على كل شىء قدير لا اله الا الله وحده انجز وعده و نصر عبده وهزم الاحزاب وحده”[22]

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، سلطنت اسی کی ہے، تعریف کا حقدار وہی ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد کی اور تمام گروہوں کو اُس اکیلے ہی نے پسپا کر دیا۔‘‘

اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر الحرام (مزدلفہ) پر آئے تو بھی آپ نے اللہ کی توحید بیان کی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا:

(فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى)[23]

’’سب سے پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا۔‘‘

احادیث میں لفظ “التوحید” اور “اھل التوحید” بھی موجود ہے، نیز محدثین اور شارحین حدیث نے توحید سے متعلق احادیث بیان کرتے وقت تبویب میں لفظ توحید کااکثر استعمال کیا ہے۔ (من شهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له)حدیث پر مسلم (کتاب الایمان) میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے:

الدلیل علم من مات علی التوحید دخل الجنة قطعا

’’اس بات کی دلیل کہ توحید پر فوت ہونے والا شخص قطعی طور پر جنتی ہے۔‘‘

عاص بن وائل سہمی نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ نحر کرے گا (وہ فوت ہو گیا تو اس نے ایک بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ نحر کر دیے جبکہ (دوسرے بیٹے) عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) نے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:

(أَمَّا أَبُوكَ ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ ، فَصُمْتَ ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ ، نَفَعَهُ ذَلِكَ)

’’اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا تو تم اس کی طرف سے روزے رکھ لیتے اور صدقہ ادا کر دیتے تو یہ عمل اسے فائدہ دیتا۔‘‘

اس حدیث میں لفظ ” التوحيد” واضح طور پر موجود ہے۔ بعض روایات میں اہل التوحید کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(يُعَذَّبُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ فِي النَّارِ حَتَّى يَكُونُوا فِيهَا حُمَمًا ثُمَّ تُدْرِكُهُمُ الرَّحْمَةُ فَيُخْرَجُونَ وَيُطْرَحُونَ عَلَى أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ، قَالَ : فَيَرُشُّ عَلَيْهِمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْمَاءَ ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْغُثَاءُ فِي حِمَالَةِ السَّيْلِ ثُمَّ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ) [24]

’’اہل توحید کے کچھ لوگوں کو جہنم کا عذاب دیا جائے گا حتی کہ وہ اس میں کوئلہ ہو جائیں گے، پھر ان پر رحمتِ الہٰی ہو گی تو انہیں نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، آپ نے فرماایا: اہل جنت ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ لوگ ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ میں دانا اُگ آتا ہے، پھر وہ (اہلِ توحید) جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘

ہم جو عبادت بدنی اور عبادت مالی  وغیرہ کرتے ہیں وہ صرف ایک اللہ تعالی کے لئے کر ے اس میں اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائے۔

اور اسی طرح اللہ تعا لی کے جتنے صفات ہیں ان میں بھی اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائے۔اور اس عقیدہ توحید کو افضلیت اس وجہ سے بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے جتنے بھی انبیاء نازل فرمائے ہیں انکو یہ حکم تھا کہ لوگوں کو ایک اللہ تعالی کی طرف بلاؤ۔جس طرح آیت مبارکہ میں ہے۔

وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالٰہ الا انا فاعبدون([25])

ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجاہے اس کو یہی وحی کی ہےکہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے،پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

اور ہر مذہب و ملت کےپیروکارخدا کو مانتے   ہیں  یہودی، نصرانی، مجوسی  ہندو سب ہی اللہ تعالیٰ کے وجود کو ماننے پر متفق ہیں۔لیکن ان کے ساتھ بنیادی نزاع اس بات پر ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کو یک نہیں مانتے ۔

واللہ اعلم بالصواب

الجوب و باللہ التوفیق

[1]:  الاعلی- 17

[2] : تفھیم القرآن ج6 ص316 حاشیہ17 ادارہ ترجمان القرآن لاہور

[3] : البقرہ-82

[4]: يوسف ایت 39

[5] : الرعد – 16

[6] : ابراهيم – 48

[7] : ص – 65

[8] : الزمر – 4

[9] : المؤمن – 16

[10] : البقرة – 163

[11] : النساء- 171

[12] : المائدة  – 73

[13] : الانعام- 19

[14] :الكهف- 110

[15] :الحج- 34

[16] :الصافات- 4

[17] : التوبة – 31

[18] : الإسراء- 46

[19] :الزمر- 45

[20] : المؤمن- 12

[21] : سورة الممتحنة- 4

[22] : (مسلم، الحج، حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح 1218، ابوداؤد، المناسک، صفة حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 1905)

[23]: (بخاري، التوحید، ما جاء فی دعا النبی امته الی توحید اللہ تبارک و تعالیٰ،ح: 7372، بیہقي 7/2)

[24]: (ترمذي، صفة جھنم، ماجاء ان للنار نفسین وما ذکر من یخرج من النار من اھل التوحید، ح: 2597)

[25]:انبیاء -25